واشنگٹن —
امریکی وزیر دفاع چَک ہیگل نے اتوار کے روز ایک نئے قسم کے جدید بحری جہاز کا دورہ کیا اور امریکی بحریہ کے ملاحوں سے ملاقات کی۔
ہیگل ’یو ایس ایس فریڈم‘ پر گئے جو کہ ایک جدید اور نسبتاً چھوٹے درجے کا بحری جہاز ہے جو کم گہرے پانی میں کئی قسم کی فوجی کارروائیاں کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ علاقے کے ملکوں کے ساتھ مشقوں کی خاطر ’فریڈم‘ اِس وقت چانگی بحری اڈے پر لنگر انداز ہے۔
وزیر دفاع سنگاپور میں ہیں جہاں وہ ایشیائی ممالک کے ساتھ سلامتی سے متعلق سالانہ اجلاس میں شرکت کریں گے۔
ہفتے کے روز سلامتی سے متعلق سالانہ اجلاس میں، جسے ’شنگریلا ڈائلاگ‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ایک کلیدی خطاب میں ہیگل نے چین کو سائبر حملوں پر متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ اِن میں سے چند حملے ایسے ہیں جِن میں حکومتِ چین اور اُس کی فوج ملوث ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ سائبر حملے ہر ملک کی سلامتی کو لاحق خطرات کےغماز ہیں، جن میں چین بھی شامل ہے۔
اُدھر اجلاس سے باہر ہیگل نے جاپانی وزیر دفاع اِٹسونوری اونودیرا اور جنوبی کوریا کے کِم کوان جِن سے ملاقاتیں کیں۔ بعدازاں، تینوں کا کہنا تھا کہ وہ شمالی کوریا کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کر ترک کرنے کے سلسلے میں تعاون جاری رکھیں گے۔
وہ بند کمرے میٕں کی گئی ایک ملاقات میں چینی وفد کے ارکان کے ساتھ بھی ملے۔ امریکی حکام نے اِس بات چیت کو ’مثبت‘ قرار دیا ہے۔
ایک برس سے زائد عرصے سے جاری سخت نوعیت کی بیان بازی، ایک میزائل اور ایک جوہری تجربے کے بعد، شمالی کوریا نے گذشتہ ماہ چینی صدر ژی جِن پِنگ کو بتایا کہ وہ نیوکلیئر تنازع پر مکالمے کے لیے تیار ہے۔
شمالی کوریا کےجوہری ہتھیاروں کی تخفیف کے حوالے سے تعطل کے شکار چھ فریقی مذاکرات میں چین ایک فریق ہے۔ امریکہ، جاپان، جنوبی کوریا اور روس بھی اِن مذاکرات میں شرکت کرتے ہیں۔
ایشیا میں امریکہ کی موجودگی کے بارے میں چین کی تشویش کا ذکر کرتے ہوئے، ہیگل نے کہا کہ امریکہ ’ایک مضبوط اور فروغ پاتے ہوئے چین کا حامی ہے جو علاقے کی سلامتی کی ذمے داری قبول کرتا ہو‘۔
اُنھوں نے کہا کہ امریکہ اس بات کا خواہاں ہے کہ چین کے ساتھ باہمی عزت کی بنیاد پر بات چیت کی ئاے۔
چینی صدر ژی جِن پِنگ اِس ماہ کے اواخر میں کیلی فورنیا میں امریکی صدر براک اوباما سے ملاقات کرنے والے ہیں۔
ہیگل ’یو ایس ایس فریڈم‘ پر گئے جو کہ ایک جدید اور نسبتاً چھوٹے درجے کا بحری جہاز ہے جو کم گہرے پانی میں کئی قسم کی فوجی کارروائیاں کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ علاقے کے ملکوں کے ساتھ مشقوں کی خاطر ’فریڈم‘ اِس وقت چانگی بحری اڈے پر لنگر انداز ہے۔
وزیر دفاع سنگاپور میں ہیں جہاں وہ ایشیائی ممالک کے ساتھ سلامتی سے متعلق سالانہ اجلاس میں شرکت کریں گے۔
ہفتے کے روز سلامتی سے متعلق سالانہ اجلاس میں، جسے ’شنگریلا ڈائلاگ‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ایک کلیدی خطاب میں ہیگل نے چین کو سائبر حملوں پر متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ اِن میں سے چند حملے ایسے ہیں جِن میں حکومتِ چین اور اُس کی فوج ملوث ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ سائبر حملے ہر ملک کی سلامتی کو لاحق خطرات کےغماز ہیں، جن میں چین بھی شامل ہے۔
اُدھر اجلاس سے باہر ہیگل نے جاپانی وزیر دفاع اِٹسونوری اونودیرا اور جنوبی کوریا کے کِم کوان جِن سے ملاقاتیں کیں۔ بعدازاں، تینوں کا کہنا تھا کہ وہ شمالی کوریا کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کر ترک کرنے کے سلسلے میں تعاون جاری رکھیں گے۔
وہ بند کمرے میٕں کی گئی ایک ملاقات میں چینی وفد کے ارکان کے ساتھ بھی ملے۔ امریکی حکام نے اِس بات چیت کو ’مثبت‘ قرار دیا ہے۔
ایک برس سے زائد عرصے سے جاری سخت نوعیت کی بیان بازی، ایک میزائل اور ایک جوہری تجربے کے بعد، شمالی کوریا نے گذشتہ ماہ چینی صدر ژی جِن پِنگ کو بتایا کہ وہ نیوکلیئر تنازع پر مکالمے کے لیے تیار ہے۔
شمالی کوریا کےجوہری ہتھیاروں کی تخفیف کے حوالے سے تعطل کے شکار چھ فریقی مذاکرات میں چین ایک فریق ہے۔ امریکہ، جاپان، جنوبی کوریا اور روس بھی اِن مذاکرات میں شرکت کرتے ہیں۔
ایشیا میں امریکہ کی موجودگی کے بارے میں چین کی تشویش کا ذکر کرتے ہوئے، ہیگل نے کہا کہ امریکہ ’ایک مضبوط اور فروغ پاتے ہوئے چین کا حامی ہے جو علاقے کی سلامتی کی ذمے داری قبول کرتا ہو‘۔
اُنھوں نے کہا کہ امریکہ اس بات کا خواہاں ہے کہ چین کے ساتھ باہمی عزت کی بنیاد پر بات چیت کی ئاے۔
چینی صدر ژی جِن پِنگ اِس ماہ کے اواخر میں کیلی فورنیا میں امریکی صدر براک اوباما سے ملاقات کرنے والے ہیں۔