پاکستان میں پہلی مرتبہ ایک منتخب صدر کی اپنی میعاد کے پانچ سال پورے ہونے اور پھر ایک نو منتخب صدر کو پرامن طریقے سے اقتدار کی منتقلی کے غیر معمولی واقعہ پر ’نیو یارک ٹائمز‘ کی ایک تجزیاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس ملک میں کسی سربراہ مملکت کے لئے پوری میعاد کے لئے اقتدار برقرار رکھنا تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اپنے پنج سالہ دور میں مسٹر آصف علی زرداری کے اقتدار کو ایک کے بعد دوسرے خطرے کا سامنا رہا، لیکن انہوں نے اپنے آپ کو بچا لیا۔ سرکردہ ججوں نے بد عنوانیوں کی فرد جرم عائد کرکے ان کو صدارت سے ہٹانے کی کوشش کی، فوجی جنرل غیر ملکی سفارت کاروں سے رازداری میں فوجی انقلاب کے امکان کی باتیں کرتے رہے، طالبان نے انہیں جان سے مار دینے کا عہد کیا اور پاکستانی اخباری میڈیا کے بیشتر حصے اور عام لوگ اُن کا مذاق اُڑانے اور اُن کی مذمّت کرنے میں پیش پیش پیش رہے۔
اخبار کہتا ہے کہ صدر زرداری اپنے پیچھے ایک تباہ حال معیشت چھوڑ کے جا رہے ہیں، جب کہ ایک وقت کی زبردست سیاسی طاقت، یعنی پاکستان پیپلز پارٹی، جس کے کہ وہ سربراہ ہیں، انتخابات میں شکست فاش کھانے کے بعد اب افراتفری کا شکار ہے۔
اس کے باوجود، اخبار کہتا ہے کہ اُن سے وابستہ توقعات کے برعکس 58 سالہ زرداری نے اپنے عُہدے کے اختیارات کم کرکے پاکستان کی جمہوریت کو تقویت پہنچائی۔
انہوں نےپانچ سال کی میعاد پوری کرنے والےپہلےمنتخب صدر کا اعزاز حاصل کر لیا۔
اُنہوں نے سیاست کا لہجہ بدل دیا اور کھلم کُھلا محاذ آرائی کے بدلےز یادہ دریا دلی کا برتاؤ اپنایا اور صدر بننے سے قبل اپنی 11 سالہ قید کے دوران ان کی جبلّی خصائیل میں جو پختگی آئی تھی اس کی بدولت اُنہوں نے ایسے سیاسی ہتھکنڈے استعمال کئے کہ اُن کے طاقت ور ترین حریف ان سے مات کھا گئے اور اُنہیں کوئی گزند نہ پہنچا سکا۔
اخبار نے ایک معتبر شخص کے حوالے سے، جو مسٹر زرداری سے باقاعدگی کے ساتھ ملاقات کرتے رہتے تھے، کہا ہے کہ اِن پرائیویٹ ملاقاتوں میں مسٹر زرداری اشارتہً انہیں بتایا کرتے تھے کہ انہیں یقین ہے کہ ان کی گفتگو کو ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔ اور وہ اپنے کندھے پر دو انگلیوں کو ٹیپ کرکے اس کا اشارہ دیتے کہ ان کا روئے سُخن فوج کی طرف تھا۔ اس معتبر شخص نے اس شرط پر یہ بات بتائی کہ اُن کا نام صیغہٴ راز میں رکھا جائے گا، ورنہ انہیں خطرہ ہے۔۔
لیکن، جیسا کہ اخبار کہتا ہے کہ حالیہ برسوں میں پاکستانی فوج کے وقار کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ خاص طور پر مئی 2011 ء کو اُس امریکی کمانڈوز کے حملے کے بعد جس میں اوسامہ بن لادن کو ہلاک کیا گیا تھا، اس کے بعد فوجی انقلاب کے اندیشوں کے پس منظر میں مسٹر زرداری پر یہ الزام لگنے لگے کہ وُہ خُفیہ طور پر امریکہ کا ساتھ دے رہے ہیں۔ لیکن، جلد ہی یہ افواہیں اپنی موت مرگئیں اور ظاہر ہونے لگا کہ سیاسی مداخلت کے لئے فوج کو اب نئی روکاوٹوں کا سامنا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اپنی سیاسی چالوں کی وجہ سے مسٹر زرداری کو سیاسی اور عدالتی کامیابیاں ضرور ہوئیں، لیکن وہ پاکستان کے سب سے گمبھیر مسائل کو نہ حل کر سکے، ملک کی معیشت اتھاہ گہرائیوں کو چھو چکی ہے، زر مبادلہ کے ذخائر سکڑ رہے ہیں، بین الاقوامی قرضوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے اور توانائی کی کمیابی بُحران کی حد تک بڑھ گئی ہے۔
اخبار کے بقول، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ صدارتی استثنیٰ کا تحفظ ختم ہونے کے بعد عدلیہ نئے سرے سے مسٹر زرداری کے خلاف مقدّمے کھول سکتا ہے، اُن کے پیشرو پرویز مشرّف اس وقت پانچ فوجداری مقدّمے بُھگت رہے ہیں۔
’لاس انجلس ٹائمز‘ میں کالم نگار کرس ایڈل سن رقمطراز ہیں کہ اوبامہ انتظامیہ کے اس اعلان کے بعد کہ وہ شام میں اسد حکومت کی طرف سے کیمیائی ہتھیاروں کی پاداش میں اس ملک کے خلاف ایک محدود نوعیت کی فوجی کار وائی کرنے والی ہے۔
موضوع زیر بحث یہ ہے کہ آیا بین الاقوامی قانون کے تحت امریکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اجازت کے بغیر ایسی کاروائی کرنے کا مجاز ہے یانہیں۔ امریکہ کے اندر اس وقت جو بحث ہو رہی ہے۔ اس میں اس سے بھی اہم اور زیادہ بنیادی سوال کو نظر انداز کیا جا رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ آیا امریکی آئین صدر اوبامہ کو کانگریس کی منظوری کے بغیر شام کے خلاف فوجی کاروائی کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
اخبار یاد دلاتا ہے کہ مسڑ اوبامہ جب سنہ 2007 میں صدر کا انتخاب لڑ رہے تھے تو اس وقت وہ آئینی قانون کے پروفیسر تھے، اور اس وقت ان کا یہ موقف تھا کہ صدر کو یک طرفہ طور پر ایک ایسی صورت میں فوجی کاروائی کرنے کا حق نہیں ہے جس میں قوم کو کسی فوری خطرے سے بچانا نہ ہو۔ اور اخبار کے خیال میں یہ امریکی قانون کی درُست تعریف تھی۔
اخبار کہتا ہے کہ اپنے پنج سالہ دور میں مسٹر آصف علی زرداری کے اقتدار کو ایک کے بعد دوسرے خطرے کا سامنا رہا، لیکن انہوں نے اپنے آپ کو بچا لیا۔ سرکردہ ججوں نے بد عنوانیوں کی فرد جرم عائد کرکے ان کو صدارت سے ہٹانے کی کوشش کی، فوجی جنرل غیر ملکی سفارت کاروں سے رازداری میں فوجی انقلاب کے امکان کی باتیں کرتے رہے، طالبان نے انہیں جان سے مار دینے کا عہد کیا اور پاکستانی اخباری میڈیا کے بیشتر حصے اور عام لوگ اُن کا مذاق اُڑانے اور اُن کی مذمّت کرنے میں پیش پیش پیش رہے۔
اخبار کہتا ہے کہ صدر زرداری اپنے پیچھے ایک تباہ حال معیشت چھوڑ کے جا رہے ہیں، جب کہ ایک وقت کی زبردست سیاسی طاقت، یعنی پاکستان پیپلز پارٹی، جس کے کہ وہ سربراہ ہیں، انتخابات میں شکست فاش کھانے کے بعد اب افراتفری کا شکار ہے۔
اس کے باوجود، اخبار کہتا ہے کہ اُن سے وابستہ توقعات کے برعکس 58 سالہ زرداری نے اپنے عُہدے کے اختیارات کم کرکے پاکستان کی جمہوریت کو تقویت پہنچائی۔
انہوں نےپانچ سال کی میعاد پوری کرنے والےپہلےمنتخب صدر کا اعزاز حاصل کر لیا۔
اُنہوں نے سیاست کا لہجہ بدل دیا اور کھلم کُھلا محاذ آرائی کے بدلےز یادہ دریا دلی کا برتاؤ اپنایا اور صدر بننے سے قبل اپنی 11 سالہ قید کے دوران ان کی جبلّی خصائیل میں جو پختگی آئی تھی اس کی بدولت اُنہوں نے ایسے سیاسی ہتھکنڈے استعمال کئے کہ اُن کے طاقت ور ترین حریف ان سے مات کھا گئے اور اُنہیں کوئی گزند نہ پہنچا سکا۔
اخبار نے ایک معتبر شخص کے حوالے سے، جو مسٹر زرداری سے باقاعدگی کے ساتھ ملاقات کرتے رہتے تھے، کہا ہے کہ اِن پرائیویٹ ملاقاتوں میں مسٹر زرداری اشارتہً انہیں بتایا کرتے تھے کہ انہیں یقین ہے کہ ان کی گفتگو کو ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔ اور وہ اپنے کندھے پر دو انگلیوں کو ٹیپ کرکے اس کا اشارہ دیتے کہ ان کا روئے سُخن فوج کی طرف تھا۔ اس معتبر شخص نے اس شرط پر یہ بات بتائی کہ اُن کا نام صیغہٴ راز میں رکھا جائے گا، ورنہ انہیں خطرہ ہے۔۔
لیکن، جیسا کہ اخبار کہتا ہے کہ حالیہ برسوں میں پاکستانی فوج کے وقار کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ خاص طور پر مئی 2011 ء کو اُس امریکی کمانڈوز کے حملے کے بعد جس میں اوسامہ بن لادن کو ہلاک کیا گیا تھا، اس کے بعد فوجی انقلاب کے اندیشوں کے پس منظر میں مسٹر زرداری پر یہ الزام لگنے لگے کہ وُہ خُفیہ طور پر امریکہ کا ساتھ دے رہے ہیں۔ لیکن، جلد ہی یہ افواہیں اپنی موت مرگئیں اور ظاہر ہونے لگا کہ سیاسی مداخلت کے لئے فوج کو اب نئی روکاوٹوں کا سامنا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اپنی سیاسی چالوں کی وجہ سے مسٹر زرداری کو سیاسی اور عدالتی کامیابیاں ضرور ہوئیں، لیکن وہ پاکستان کے سب سے گمبھیر مسائل کو نہ حل کر سکے، ملک کی معیشت اتھاہ گہرائیوں کو چھو چکی ہے، زر مبادلہ کے ذخائر سکڑ رہے ہیں، بین الاقوامی قرضوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے اور توانائی کی کمیابی بُحران کی حد تک بڑھ گئی ہے۔
اخبار کے بقول، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ صدارتی استثنیٰ کا تحفظ ختم ہونے کے بعد عدلیہ نئے سرے سے مسٹر زرداری کے خلاف مقدّمے کھول سکتا ہے، اُن کے پیشرو پرویز مشرّف اس وقت پانچ فوجداری مقدّمے بُھگت رہے ہیں۔
’لاس انجلس ٹائمز‘ میں کالم نگار کرس ایڈل سن رقمطراز ہیں کہ اوبامہ انتظامیہ کے اس اعلان کے بعد کہ وہ شام میں اسد حکومت کی طرف سے کیمیائی ہتھیاروں کی پاداش میں اس ملک کے خلاف ایک محدود نوعیت کی فوجی کار وائی کرنے والی ہے۔
موضوع زیر بحث یہ ہے کہ آیا بین الاقوامی قانون کے تحت امریکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اجازت کے بغیر ایسی کاروائی کرنے کا مجاز ہے یانہیں۔ امریکہ کے اندر اس وقت جو بحث ہو رہی ہے۔ اس میں اس سے بھی اہم اور زیادہ بنیادی سوال کو نظر انداز کیا جا رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ آیا امریکی آئین صدر اوبامہ کو کانگریس کی منظوری کے بغیر شام کے خلاف فوجی کاروائی کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
اخبار یاد دلاتا ہے کہ مسڑ اوبامہ جب سنہ 2007 میں صدر کا انتخاب لڑ رہے تھے تو اس وقت وہ آئینی قانون کے پروفیسر تھے، اور اس وقت ان کا یہ موقف تھا کہ صدر کو یک طرفہ طور پر ایک ایسی صورت میں فوجی کاروائی کرنے کا حق نہیں ہے جس میں قوم کو کسی فوری خطرے سے بچانا نہ ہو۔ اور اخبار کے خیال میں یہ امریکی قانون کی درُست تعریف تھی۔