صدارتی نامزدگی کے لیے ریپبلیکن امیدواروں کے درمیان مقابلے میں کبھی ایک امیدوار کا پلڑا بھاری ہو جاتا ہے اور کبھی دوسرے کا۔ ایسے حالات میں کوئی بھی پیشگوئی کرنا مشکل ہو گیا ہے ۔ اب حالات نے ایک نیا رخ اختیار کیا ہے ۔ رومنی کی اپنی ریاست مشی گن میں، بعض جائزوں میں سابق سینیٹر رک سنٹورم نے مٹ رومنی پر سبقت حاصل کر لی ہے۔ کئی قومی جائزوں میں بھی سنٹورم، رومنی کے برابر ہیں یا ان سے کچھ آگے نکل گئے ہیں۔
سنٹورم کا خیال ہے کہ قدامت پسند ریپبلیکن ووٹرز، خاص طور سے وہ لوگ جنہیں اسقاط ِ حمل اور ہم جنس پرستوں کے درمیان شادی جیسے سماجی امور کے بارے میں تشویش ہے، ان کی حمایت کر رہے ہیں۔’’ بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ رک، اس مقابلے میں سماجی طور پر قدامت پسند صرف آپ ہیں۔ اور میں ان سے کہتا ہوں کہ اگر اس کا مطلب یہ ہے کہ اس ریس میں صرف میں ہی ایسا امیدوار ہوں جو مذہب اور خاندان کے مسائل کے بارے میں بات کرتا ہے، تو میں یہ بات تسلیم کر لوں گا۔‘‘
رومنی اب مشی گن میں خوب پیسہ خرچ کر رہےہیں اور اپنی تنظیم سے کام لے رہے ہیں۔ انھوں نے ٹیلیویژن پر سنٹورم کے خلاف منفی اشتہارات کی بوچھاڑ کر دی ہے، اگرچہ سنٹورم کی انتخابی مہم نے بھی اس کے جواب میں اپنے بہت سے اشتہار دکھائے ہیں۔
رومنی مسلسل اس مسئلے پر توجہ دے رہے ہیں کہ انہیں قدامت پسند ریپلیکن ووٹرز کی حمایت حاصل کرنے میں دشواری پیش آ رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’مجھ میں قدامت پسندی صرف عظیم قدامت پسند اسکالرز کی تصنیفات پڑھنے کی وجہ سے نہیں آئی بلکہ میری قدامت پسندی کی اصل وجہ میری زندگی، میرا گھرانہ، میرا مذہب اور میرا کاروبار ہے ۔‘‘
مشی گن اور ایریزونا ، دونوں ریاستوں میں پرائمری انتخاب 28 فروری کو ہوتے ہیں، لیکن اب بیشتر توجہ اس بات پر ہے کہ مشی گن میں کیا ہوتا ہے ۔
اگرچہ رومنی ریاست میسا چوسٹس کے گورنر رہ چکے ہیں، لیکن وہ مشی گن میں پلے بڑھے، اور ان کے والد، جارج، اسی ریاست کے گورنر تھے اور اسی زمانے میں انھوں نے 1968 میں صدر کے انتخاب میں حصہ لینے کی ناکام مہم چلائی تھی ۔
سیاسی ماہر میتھیو ڈوؤڈ نے اے بی سی ٹیلیویژن کے پروگرام میں کہا کہ اگر رومنی مشی گن میں ہار گئے، تو اس سے صدارتی انتخاب کے لیے ان کی امیدوں کو دھچکہ لگ سکتا ہے ۔’’یہ ایک انتہائی اہم لمحہ ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ رومنی کی پوری انتخابی مہم میں یہ اہم ترین وقت ہے ۔ جس طرح انھوں نے دوسرے امیدواروں کو، جیسے نیوٹ گنگرچ کو روکا ہے، کیا وہ اسی طرح رک سنٹورم کو روک سکتے ہیں۔ مٹ رومنی کے لیے یہ نا قابلِ یقین حد تک اہم لمحہ ہے۔ اگر وہ یہ مقابلہ ہار گئے، تو پھر سارا نقشہ ہی بدل جائے گا۔‘‘
فنڈز جمع کرنے اور قومی سطح پر انتخابی مہم کو منظم کرنے کے معاملے میں، رومنی کو اب بھی اپنے تمام حریفوں پر سبقت حاصل ہے۔ بائی پارٹیزن پالیسی سنٹر کے تجزیہ کار جان فورٹیئر کہتے ہیں کہ رومنی مسلسل یہ دلیل دیتے رہیں گے کہ تمام ریپبلیکن امیدواروں میں صدر براک اوباما کو شکست دینے کی صلاحیت ان میں سب سے زیادہ ہے کیوں کہ وہ اعتدال پسند ووٹرز میں مقبول ہیں ۔
’’اپنے بے اندازہ وسائل کی روشنی میں وہ ریپبلیکن پارٹی کے سامنے اپنا کیس پیش کریں گے۔ اس کے علاوہ وہ یہ دلیل بھی دیں گے کہ ان کے منتخب ہونے کا امکان سب سے زیادہ ہے ۔ وہ یہ بات پہلے بھی کہتے رہے ہیں، اور جیسے جیسے پرائمری انتخابات ہوں گے، ووٹرز اس دلیل کو زیادہ وزن دینے لگیں گے ۔‘‘
مشی گن اور ایریزونا میں چاہے کچھ ہی کیوں نہ ہو، یونیورسٹی آف ورجینیا کے ماہر لیری ساباتو نے پیشگوئی کی ہے کہ اگلے چند مہینوں میں، ریپبلیکن نامزدگی کے لیے بڑی طویل جنگ ہو گی۔’’اکثر یہ مقابلے بڑی طویل دوڑ کی شکل اختیار کر لیتےہیں ۔ شروع کے چند پرائمری انتخابات میں کوئی ایسی ضرب نہیں لگتی کہ مخالف امیدوار کھڑا ہی نہ ہو سکے ۔ اور اب یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ2012 میں صدارتی انتخاب کے لیے ریپبلیکن امید وار کی نامزدگی کی دوڑ بہت طویل ہوگی۔‘‘
امریکی ایوانِ نمائندگان کے سابق اسپیکر نیوٹ گنگرچ اور کانگریس مین رون پاؤل بھی ریپبلیکن ریس میں شامل ہیں۔
28 فروری کو دو پرائمری انتخابات کے بعد، ریپبلیکن انتخابی مہم کی رفتار بہت تیز ہو جائے گی اور 6 مارچ کو ، صرف ایک ہی دن میں، 10 ریاستوں میں ووٹ ڈالے جائیں گے۔ اس دن کو پرائمری انتخابات اور کاکسوں کا سپر ٹیوزڈے کہا جاتا ہے