صدارتی انتخابات کے رواں سال میں امریکہ میں امید واروں کی مقبولیت جانچنے کے لئے وقفےوقفے سے عوامی جائزے لئے جاتے ہیں اور واشنگٹن پوسٹ کے مطابق اس اخبار نے اے بی سی ٹیلی وژن چینل کے ساتھ مل کر جو تازہ جائزہ لیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے ۔ کہ اوباما کو رامنی پر واضح سبقت حاصل ہو گئی ہے۔اور صدر کی اقتصادی شُعبے میں قیادت پر عوام کو جو اعتماد ہے ۔ وہ مسٹر رامنی کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
اخبار کہتا ہےکہ مسٹر رامنی نے ریاست نیواڈا کی پرائمری میں کامیابی حاصل کر کے اپنی پوزیشن تو بہتر بنا لی ہےلیکن ری پبلکن نامزدگی کے امید وار ایک دوسرے کے خلاف جو منفی پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔ اس سے پبلک میں انہیں کا تاثّر خراب ہورہا ہے۔ اور اس میں ممیساچوسیٹس کے سابق گورنر مٹ رامنی شامل ہیں۔
اخبار کہتا ہے کی اوبامہ کی شخصیت کی وجہ سے امریکی عوام کو یہ مخمصہ درپیش ہے آیا وہ دوسری مرتبہ صدر منتخب ہونے کے اہل ہیں ، اور ان کے زیر نظر اس عہدے پر فائز ہونے کے بعد ان کی کارکردگی کے مختلف پہلو ہیں۔ قومی معیشت کو صدر نے جس طرح چلایا ہے۔ اس پر عوام کا ردعمل پہلے سے بہتر ہے۔
اخبار کے بقول اگر یہ صدارتی انتخاب اگر صدر کی مجموعی کار کردگی پر ریفرنڈم کی طرح ہوا جیسا کہ ری پبلکن امید کرتے ہیں ، تو صدر کو دوسری میعاد صدارت کے لئے جد و جہد کرنی پڑے گی۔ لیکن اگر مقابلہ موجودہ صدر اور ان کے مد مقابل کسی بھی ریپبلکن امیدوار سے ہوتا ہے۔ یعنی سیدھے سبھاؤ دو میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہو، تو مسٹر اوباما کے مشیروں کو یقین ہے کہ اس میں صدر کے امکانات زیادہ روشن ہیں
امریکی معیشت میں فروری کے مہینے میں 2 لاکھ 43 لاکھ روز گار کے نئے مواقع نکلنے سے بے روزگاری کی شرح مزید گر کر 8 اعشاریہ 3 فی صد رہ گئی ہے۔اس پر اخبار کرسچن سائینس مانٹر کہتا ہے کہ صدر اوباما کے لئے یہ اچھی خبر ہے ۔ لیکن ری پبلکن اس سے اتفق نہیں کرتے ۔ اخبار کا سوال ہے کہ اقتصادی شعبے میں اس بظاہر اچھی پیش رفت کا اوباما کو کتنا کریڈٹ جاتا ہے۔ اوباما کے ایک سابق مشیر لیری سمرس کہتے ہیں کہ یہ پیشرفت زیادہ تر پرائیویٹ سیکٹر میں ہوئی ہے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک متبادل جائزے کے مطابق دراصل پانچ لاکھ یا اس ے زیادہ اسامیاں پر ہوئی ہیں۔ لوگ کام کے زیادہ اوقات لگا رہے ہیں۔ تنخواہیں بڑھ رہی ہیں۔ فرمیں مزید خالی اسامیوں کے لئے درخواستیں طلب کر رہی ہیں۔ اور اگر اسی رفتار سے روزگار کے مواقع بڑھتے رہے ۔ تو نیو یارکر میگزین کے ایک بلاگر کا اندازہ ہے کہ اس کے نتیجے میں بے روزگاری کی شرح اسی سطح پر پہنچ جائے گی جو ان کے عہدہ سنبھالنے کے وقت تھی
مصر میں جمہوریت نواز تنظیموں کے لئے کام کرنے والے 19 امریکی شہریوںپر، ملک کی حکومت نے جس پر فوج کا غلبہ ہے، لائیسنسنگ اور مالی الزامات پر مقدّمہ چلانے کا فیصلہ کیا ہے جس کی وجہ سے لاس اینجلس ٹائمز کے بقول واشنگٹن اور قاہرہ کے مابین مزید خراب ہو گئے ہیں۔ اور اشتعال انگیز فیصلہ ایساے میں آیا ہے ۔ جب امریکہ نے مصر کی ایک ارب 30 کروڈ کی سلالانی بند کرنے کی دہمکی دی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ امریکہ اور مصر کے مابین30 سال سے زیادہ عرصے سے قریبی تعاون رہا ہے۔جو اس وجہ سے خطرے میں پڑا ہوا ہے کہ مصری سیاسیا ت ایک نئی جہت پر چل پڑی ہے ، اور اس کی سیاسیات ا ور پارلیمنٹ پر اسلام پسندوں کا قبضہ ہو گیا ہے ۔ جس نے کئی امور پر واشنگٹن کی تشویش کو بڑھا دیا ہے ، ان میں مصر میں شہری آزادیوں کی صورت حال اور اس کی خارجہ پالیسی شامل ہے اور غیر سرکا ری تنظیموں نے جس جمہوری شفافیت اپنی کارکردگی میں اپنا رکھی ہے۔ اسے فوج خطرے کی نگاہ سے دیکھتی ہے ۔ کیونکہ وہ کئی عشروں سے عوامی احتساب سے بالا تر رہی ہے۔