روس 18 مارچ کو افغانستان میں امن عمل کو آگے بڑھانے کے موضوع پر کانفرنس منعقد کرنا چاہتا ہے اور اس سلسلے میں اس نے افغان رہنماؤں اور طالبان کے علاوہ امریکی، چینی اور پاکستان کو شرکت کی دعوت بھی دی ہے۔
کانفرنس کی تجویز سب سے پہلے روس کے لئے افغانستان کے نمائندہ خصوصی زمیر کابولاف نے گزشتہ ماہ خبر رساں ادارے سپوٹنک کو ایک انٹرویو کے دوران دی تھی۔
انہوں نے اس وقت کہا تھا کہ دوحہ امن مذاکرات تعطل کا شکار تھے لہذا روس نے افغانستان پر ماسکو میں کانفرس کرانے سے متعلق امریکی حکام سے بھی بات کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ افغان امن عمل پر بات چیت کے لیے ایک اور طریقہ کار بھی ہے جو کہ اصل میں امریکی تجویز ہے اور جس کے مطابق ہم ایک ایسا چھوٹا گروپ تشکیل دیں،جس میں افغان امن عمل پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والے ممالک یعنی امریکہ، چین، پاکستان اور ایران شامل ہوں۔
تاہم انہوں نے کہا کہ ایران اس وقت امریکی حکام کے ساتھ اختلافات کی بنا پر میز پر بیٹھنے کو تیار نہیں۔ لیکن انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ ایران اس معاملے پر اپنا موقف تبدیل کر ے گا۔
دریں اثنا افغانستان کے وزیر خارجہ محمد حنیف اتمر نے کہا ہے کہ کابل کی حکومت ماسکو کانفرس میں شرکت کرنے پر غور کر رہی ہے۔
روس کے کابل میں تعینات سفیر ڈی مٹری اے زرنف نے حالیہ ہفتوں میں عبداللہ عبداللہ اور حامد کرزئی سمیت کئی افغان رہنماؤں سے ملاقاتیں کی ہیں۔
ادھر اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن ڈوجورِک نے کہا ہے کہ اسے امریکہ کی طرف سے افغانستان پر وزرائے خارجہ کی سطح پر کانفرنس منعقد کرانے کی کوئی رسمی درخواست ابھی موصول نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ عالمی ادارہ اس تجویز کے بارے میں میڈیا رپورٹس سے آگاہ ہے۔
تاہم ترجمان نے کہا کہ اقوام متحدہ کسی بھی ایسی کوشش کی حمایت کے لیے تیار ہے جس سے افغان جنگ کے خاتمے کے لیے پر امن حل تلاش کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اگر فریقین عالمی ادارے سے اس سلسلے میں مدد کی درخواست کریں گے تو وہ ایسا کرنے کے لیے تیار ہو گا۔
یاد رہے کہ گزشتہ اتوار کو وائس آف امریکہ نے ایک خط حاصل کیا تھا جس میں امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے افغان صدر اشرف غنی کو لکھا تھا کہ امریکہ اقوام متحدہ سے افغانستان میں امن کی حمایت میں متفقہ طریقہ کار پر بات کرنے کے لیے ایک کانفرنس کرانے کا کہے گا۔ اس کانفرنس میں روس، چین، پاکستان، ایران، بھارت اور امریکی ایلچی شرکت کریں گے۔
امریکی وزیر خارجہ کے مطابق یہی وہ ممالک ہیں جنہیں افغانستان جنگ کو کامیابی سے حل کرنے کی خاطر مل کر کام کرنا ہو گا۔
تعطل کا شکار افغان امن عمل کو بڑھانے کیلئے بیک وقت ہونے والی یہ کوششیں ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب فروری 2020 کو امریکہ اور طالبان کے درمیان طے کئے گئےمعاہدے کے تحت امریکہ کو اس سال یکم مئی تک افغانستان سے اپنی افواج کے انخلا کی ڈیڈ لائن کا سامنا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ کے خط میں ظاہر کئے گئے خیالات اور دوسرے ماہرین کے مطابق سلامتی کے موجودہ حالات میں اگر انخلا کیا گیا تو طالبان تیزی سے کئی علاقوں میں پیش قدمی کر سکتے ہیں۔
افغانستان میں بہت سے لوگ خوفزدہ ہیں کہ کہیں ملکی حالات 1990 کے عشرے میں سویت یونین کے ملک سے نکلنے اور حکومت کے خاتمے کے بعد ہونے والی خانہ جنگی کی طرف نہ لوٹ جائیں۔ اس خانہ جنگی میں ہزاروں لوگ مارے گئے تھے اور دارالحکومت کابل کو متعدد حملوں میں بہت نقصان پہنچا تھا۔
واشنگٹن مین صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ اس وقت سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں طالبان کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کا جائزہ لے رہی ہے، لیکن ساتھ ہی موجودہ امریکی انتظامیہ نے کہا ہے کہ امریکی فوجوں کے افغانستان سے مکمل انخلا سمیت تمام آپشنز میز پر موجود ہیں۔
افغان امور کے بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ یک طرفہ طور پر یکم مئی کے بعد ملک میں رہنے کا فیصلہ کرتا ہے تو طالبان اس اقدام کو معاہدے کی خلاف ورزی سمجھیں گے اور امریکہ کے خلاف پھر سے جنگ شروع کر دیں گے۔ گزشتہ سال ہونے والے معاہدے کے بعد طالبان نے ملک میں موجود امریکی اور نیٹو فورسز کے خلاف حملے بند کر رکھے ہیں۔
امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے گزشتہ ہفتے کے اختتام پر قطر میں طالبان سے ملاقات کی تھی۔ طالبان کے مطابق امریکی نمائندے نے افغان امن عمل کو آگے بڑھانے کی غرض سے ایک تجویز پر تبادلہ خیال کیا۔ اس تجویز کے مطابق افغانستان میں ایک ایسی عبوری حکومت قائم کی جائے گی جس میں طالبان کی بھی شمولیت ہو گی۔
لیکن افغان صدر غنی نے ایسی کسی عبوری حکومت بنانے کے خیال کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ ملک میں حکومت کی تبدیلی صرف انتخابات کے ذریعہ ہی عمل میں آ سکتی ہے۔