نیٹو کے سیکرٹری جنرل، ژینس سٹولٹن برگ کا کہنا ہے کہ افغانستان سے نیٹو افواج کے مکمل انخلا کے حوالے سے کسی حتمی فیصلے پر نہیں پہنچ سکے ہیں۔
برسلز میں ہونے والے نیٹو کے وزرائے دفاع کا یہ اجلاس افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کے موجود رہنے کے حوالے سے بہت اہم سمجھا جا رہا تھا۔ اس وقت مغربی اتحادی، نیٹو کے افغانستان میں تقریباً 10 ہزار فوجی تعینات ہیں۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ مارچ کے وسط میں نیٹو ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں اس حوالے سے تمام معاملات پر اتفاق رائے ہو جائے گا۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کے مطابق امریکی اور اتحادی افواج کے مکمل انخلا کے لئے 30 اپریل کی ڈیڈ لائن پر اتفاق رائے ہوا تھا۔
تاہم طالبان کی جانب سے عسکری کارروائیوں میں اضافے کے بعد جو بائیڈن انتظامیہ افغانستان سے متعلق اپنے فیصلے پر نظر ثانی کر رہی ہے۔
امریکہ کی لامار یونیورسٹی میں شعبہ صحافت سے منسلک اور امریکی امور کے ماہر پروفیسر اویس سلیم کا کہنا ہے کہ نیٹو اگرچہ مختلف ممالک کا اتحاد ہے، لیکن اس اتحاد میں امریکہ کو ایک بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اور تمام رکن ممالک اس کی جانب دیکھ کر ہی چلتے ہیں اور اسی مناسبت سے مستقبل کا لائحہ عمل طے کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ گزشتہ سال امریکہ کا طالبان کے ساتھ کیے جانے والے معاہدے پر نیٹو ممالک کی جانب سے کسی بھی قسم کے خدشات سامنے نہیں آئے تھے۔
تاہم نئی امریکی انتظامیہ کی جانب سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے معاہدے کی بعض شقوں پر نظرثانی کے عندیہ کے بعد نیٹو رکن ممالک نے وہی حکمت عملی اپنائی ہے۔ جس سے یہی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ نیٹو ممالک وہی کریں گے جو امریکہ چاہے گا۔
امریکی امور کے ماہر کا مزید کہنا ہے کہ امریکہ چاہتا ہے کہ طالبان دہشت گرد تنظیموں، خصوصاً القاعدہ کے ساتھ اپنا رابطہ مکمل طور پر ختم کر دے۔ اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس شق کی وجہ سے طالبان کے ساتھ کیا جانے والا معاہدہ تاخیر کا شکار ہو سکتا ہے۔
تاہم اویس سلیم کا کہنا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ بھی اس مسئلے کے سیاسی حل پر ہی زور دے گی کیونکہ اگر فوجی حل نکلنا ہوتا تو 19 سالوں میں نکل چکا ہوتا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ ہر سال صرف افغانستان میں دس ارب ڈالر سے زائد رقم خرچ کر رہا ہے اور اگر اس میں عراق اور شام کی جنگوں کے اخراجات شامل کئے جائیں تو امریکہ گزشتہ 19 سالوں میں ڈیڑھ کھرب ڈالر سے زائد خرچ کر چکا ہے۔ اور اس کے اثرات امریکی معیشت پر نظر آ رہے ہیں۔ اور اسی لئے فوجیوں کے انخلا کا مسئلہ اب باقاعدہ الیکشن مہم کا حصہ بن گیا ہے۔ اس لئے وہ نہیں سمجھتے کہ صدر جو بائیڈن اس جنگ کو لامحدود عرصہ تک جاری رکھیں گے اور اپنی شرائط پر ہی ختم کریں گے۔
پروفیسر اویس سلیم کے مطابق امریکی انتظامیہ اس معاملے کو کچھ لو کچھ دو کی بنیاد پر ختم کرنا چاہتی ہے لیکن بدقسمتی سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور حکومت میں طالبان کو بہت زیادہ مراعات دی گئیں تھیں۔ اور اسی وجہ سے اگر گزشتہ ایک سال کا جائزہ لیا جائے تو طالبان نے اپنی جنگی کارروائیاں بہت تیز کی ہوئی ہیں۔ اور وہ طاقت کے بل بوتے پر سب کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
سینئر صحافی اور مصنف، احمد رشید کا کہنا ہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ امریکہ اور اس کی اتحادی قوتیں مقررہ ڈیڈ لائن کے تحت افغانستان سے اپنی افواج نکال لیں گیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ اب امریکہ کی کوشش ہو گی کہ طالبان القاعدہ اور دوسرے گروہوں سے اپنے روابط مکمل طور پرختم کرے اور اس کے بعد ہی مزید پیش رفت ممکن ہو سکے گی۔
افغان امور کے ماہر کا مزید کہنا تھا کہ ان کا شروع سے ہی یہی موقف رہا ہے کہ امریکیوں نے طالبان کو بہت زیادہ لچک دی ہے اور یہی تمام چیزیں اب امریکہ کے گلے میں پڑ گئیں ہیں کیونکہ طالبان پرُتشدد کارروائیوں میں کمی نہیں لا رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ خدشہ یہی ہے کہ اگر ڈیڈ لائن کے تحت معاہدے پر عمل نہیں ہوتا تو خون ریزی میں مزید اضافہ ہو گا۔ اس تناظر میں افغان حکومت کے مسائل بھی بہت زیادہ پیچیدہ ہیں کیونکہ اگر امریکہ اور اس کے اتحادی ڈیڑھ مہینے کے اندر مکمل انخلا کرتے ہیں تو شاید طالبان کابل پر چڑھائی کر کے حکومت کی بھاگ ڈور سنبھال لیں۔
احمد رشید کا کہنا تھا کہ طالبان کے ساتھ امن معاہدے کے لئے علاقائی قوتوں کو بھی ساتھ ملانا ہو گا۔ کیونکہ جیسے ہی امریکہ کی جانب سے معاہدے پر نظرثانی کی خبریں آنا شروع ہوئیں تو طالبان قیادت نے ایران، روس اور ترکمناستان کی جانب اپنے وفود بھیجے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بدقسمتی سے امریکہ نے افغانستان کے مسئلے کے حل کے لئے گزشتہ 19 سالوں میں علاقائی ممالک کے اتحاد کی بنیاد نہیں رکھی ہے۔ اور اسی لئے اب اس امر پر زور دیا جا رہا ہے کہ اقوام متحدہ کے ذریعے علاقائی ممالک کو اس عمل میں شامل کیا جائے جو مستقبل میں پھر طالبان پر پریشر ڈال سکیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دوحہ میں بین الافغان امن مذاکرات تعطل کا شکار ہیں اور ایسے میں طالبان نے افغانستان میں پرُتشدد کارروائیوں میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امن معاہدے کے خاتمے کی صورت میں طالبان بظاہر بہار آپریشن کی تیاریاں کر رہے ہیں۔
کابل میں مقیم سینئر افغان صحافی، عصمت قانع کا کہنا ہے کہ افغانستان میں ہر طرف خونریزی ہو رہی ہے۔ بین الافغان امن مذاکرات کے تناظر میں جو امیدیں افغانوں نے لگائی تھیں وہ تمام دم توڑ چکی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ اس وقت طالبان اور افغان حکومت کے نمائندے آپس میں بات چیت نہیں کر رہے ہیں۔ طالبان کی شرائط کچھ ہیں جب کہ افغان حکومت ملک میں جمہوریت کے تسلسل کی حامی ہے۔ ایسے میں فریقین کے درمیان خلیج بڑھ رہی ہے۔
عصمت قانع کا مزید کہنا تھا کہ اس ساری صورتِ حال کا فائدہ دوسری قوتیں بھی اٹھا رہی ہیں جو کہ افغانستان میں امن کا قیام قطعاً نہیں چاہتیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ چند ماہ میں افغانستان میں سیکیورٹی کی صورتِ حال بہت زیادہ مخدوش ہو چکی ہے۔ اگرچہ طالبان اور افغان فورسز کے درمیان لڑائی جھگڑے جاری ہیں تاہم بہت سارے ایسے حملے بھی ہیں جن کی ذمہ داری طالبان نے قبول نہیں کی ہے۔ اور ایسے دوسرے عناصر اس سے بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
افغان امور کے ماہر کا مزید کہنا تھا کہ بظاہر ایسا بھی لگتا ہے کہ صدر اشرف غنی کی انتظامیہ بھی نہیں چاہتی کہ امن مذاکرات تیزی سے آگے بڑھیں۔ کیونکہ وہ بہرحال یہ چاہتے ہیں کہ اپنی آئینی مدت ہر حال میں پوری کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر تمام فریق کسی باضابطہ حل پر پہنچ جاتے ہیں تو خدشہ ہے کہ صدر اشرف غنی کو اپنے عہدے سے ہاتھ دھونے پڑ سکتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ نیٹو کے وزرائے دفاع کی میٹنگ کے بعد جاری ہونے والا اعلامیہ حیران کن نہیں ہے۔ یہ بھی خیال کیا جا رہا ہے 30 اپریل تک تمام فوجیوں کے انخلا نہ ہونے کے پیش نظر اتحادی افواج دوبارہ حملوں کی زد میں آ سکتی ہیں۔
یاد رہے کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدے کے بعد سے طالبان نے امریکہ اور اس کی اتحادی افواج پر کوئی بھی حملہ نہیں کیا ہے۔