امریکہ نے ایڈورڈ اسنوڈن کو عارضی پناہ دینے کے روسی فیصلے پر ’’شدید مایوسی‘‘ کا اظہار کیا ہے۔
اسنوڈن پر امریکہ کی خفیہ نگرانی کے پروگرام کی معلومات افشا کرنے کا الزام ہے اور امریکہ اس پر جاسوسی کے الزام میں مقدمہ چلانا چاہتا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے پریس سیکرٹری جے کارنی کا کہنا ہے کہ اس روس کے اقدام سے امریکہ کے ساتھ قوانین کے نفاذ میں روسی تعاون کے ریکارڈ کو دھچکہ پہنچا ہے۔
’’مسٹر اسنوڈن کو قانون کے تحت امریکہ کے حوالے کیے جانے کی سرکاری اور نجی سطح پر متعدد بار کی جانے والی درخواستوں کے باوجود روسی حکومت کے اس اقدام پر ہمیں شدید مایوسی ہوئی۔‘‘
امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کا سابق اہلکار اسنوڈن گزشتہ چھ ہفتوں سے ماسکو کے ہوائی اڈے کی ٹرانزٹ زون میں مقیم تھا اور ایک روز قبل وہ روس کی طرف سے ایک سال کے لیے عارضی پناہ دیے جانے کے بعد خاموشی سے کہیں اور منتقل ہوگیا۔
روس کے صدر ولادیمر پوٹن نے اوباما انتظامیہ کی طرف سے اسنوڈن کی حوالگی کی متعدد درخواستوں کو مسترد کردیا تھا۔
ماسکو کے اس اقدام سے روس اور امریکہ کے تعلقات میں مزید تناؤ پیدا ہوسکتا ہے جو کہ شام اور دیگر معاملات پر اختلافات کے باعث پہلے ہی دباؤ کا شکار ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ عہدیداران اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ آیا صدر اوباما کی روسی صدر سے ملاقات ہونی چاہیے یا نہیں جو کہ ستمبر میں سینٹ پیٹرزبرگ میں ہونے والی جی۔20 اجلاس کے موقع پر ہونا ہے۔
’’اس بارے میں آپ (صحافیوں) کے لیے میرے پاس کوئی اعلان نہیں ہے، لیکن یہ کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہے اور ہمارے روس کے ساتھ وسیع تر مفادات ہیں اور ہم اس اجلاس کے افادیت کا موازنہ کررہے ہیں۔‘‘
کارنی کا کہنا تھا کہ روس نے اوباما انتظامیہ کو تاحال پناہ دیے جانے کے اپنے فیصلے سے متعلق نوٹس نہیں دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف قانون معاملہ نہیں تھا بلکہ روس اور امریکہ کے تعلقات کی معاملہ بھی ہے۔
اسنوڈن پر امریکہ کی خفیہ نگرانی کے پروگرام کی معلومات افشا کرنے کا الزام ہے اور امریکہ اس پر جاسوسی کے الزام میں مقدمہ چلانا چاہتا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے پریس سیکرٹری جے کارنی کا کہنا ہے کہ اس روس کے اقدام سے امریکہ کے ساتھ قوانین کے نفاذ میں روسی تعاون کے ریکارڈ کو دھچکہ پہنچا ہے۔
’’مسٹر اسنوڈن کو قانون کے تحت امریکہ کے حوالے کیے جانے کی سرکاری اور نجی سطح پر متعدد بار کی جانے والی درخواستوں کے باوجود روسی حکومت کے اس اقدام پر ہمیں شدید مایوسی ہوئی۔‘‘
امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کا سابق اہلکار اسنوڈن گزشتہ چھ ہفتوں سے ماسکو کے ہوائی اڈے کی ٹرانزٹ زون میں مقیم تھا اور ایک روز قبل وہ روس کی طرف سے ایک سال کے لیے عارضی پناہ دیے جانے کے بعد خاموشی سے کہیں اور منتقل ہوگیا۔
روس کے صدر ولادیمر پوٹن نے اوباما انتظامیہ کی طرف سے اسنوڈن کی حوالگی کی متعدد درخواستوں کو مسترد کردیا تھا۔
ماسکو کے اس اقدام سے روس اور امریکہ کے تعلقات میں مزید تناؤ پیدا ہوسکتا ہے جو کہ شام اور دیگر معاملات پر اختلافات کے باعث پہلے ہی دباؤ کا شکار ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ عہدیداران اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ آیا صدر اوباما کی روسی صدر سے ملاقات ہونی چاہیے یا نہیں جو کہ ستمبر میں سینٹ پیٹرزبرگ میں ہونے والی جی۔20 اجلاس کے موقع پر ہونا ہے۔
’’اس بارے میں آپ (صحافیوں) کے لیے میرے پاس کوئی اعلان نہیں ہے، لیکن یہ کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہے اور ہمارے روس کے ساتھ وسیع تر مفادات ہیں اور ہم اس اجلاس کے افادیت کا موازنہ کررہے ہیں۔‘‘
کارنی کا کہنا تھا کہ روس نے اوباما انتظامیہ کو تاحال پناہ دیے جانے کے اپنے فیصلے سے متعلق نوٹس نہیں دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف قانون معاملہ نہیں تھا بلکہ روس اور امریکہ کے تعلقات کی معاملہ بھی ہے۔