واشنگٹن —
روس نے امریکہ کو انتہائی مطلوب سابق انٹیلی جنس اہلکار ایڈورڈ سنوڈن کو عارضی پناہ دیدی ہے جس کے بعد سنوڈن ماسکو کے ہوائی اڈے سے روانہ ہوگئے ہیں۔
سنوڈن کے وکیل اناطولی کچیرینا نے جمعرات کو صحافیوں کو بتایا کہ روسی حکومت نے ان کے موکل کو ایک سال کے لیے عارضی پناہ دینے کا فیصلہ کیا ہے جس کا اطلاق 31 جولائی سے ہوگا۔
روسی حکام کی جانب سے عارضی پناہ کی دستاویزات ملنے کے چند گھنٹوں کے اندر ہی سنوڈن انتہائی خاموشی کے ساتھ اور کسی کی نظروں میں آئے بغیر ماسکو کے ہوائی اڈے سے روانہ ہوگئے جس کے 'ٹرانزٹ لائونج' میں وہ گزشتہ 39 روز سے مقیم تھے۔
اس سے قبل گزشتہ ماہ تین لاطینی ممالک – نکارا گوا، بولیویا اور وینزویلا - نے بھی سنوڈن کو سیاسی پناہ دینے کی پیش کش کی تھی لیکن امریکی حکومت نے سنوڈن کا پاسپورٹ منسوخ کردیا تھا جس کےباعث وہ ماسکو کے ہوائی اڈے پر پھنس کر رہ گئے تھے۔
برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے گفتگو کرتے ہوئے سنوڈن کے وکیل نے بتایا کہ ان کے موکل ماسکو ہوائی اڈے سے ایک محفوظ مقام کی طرف روانہ ہوگئے ہیں جسے خفیہ رکھا جائے گا۔ ان کے بقول سنوڈن روس میں جہاں چاہیں رہ سکتے ہیں اور اپنی جائے قیام کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہیں۔
وکیل کچرینا کے بقول سنوڈن اس وقت روئے زمین پر مطلوب ترین شخص ہیں اور انہیں اپنے تحفظ کے بارے میں ابھی بہت کچھ سوچنا ہے۔
سنوڈن جمعرات کو ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے چین ماسکو ہوائی اڈے پر جمع ہونے والے فوٹو گرافروں اور صحافیوں کی ہجوم کی نظروں میں آئے بغیر ایک عام ٹیکسی کے ذریعے ماسکو کے ہوائی اڈے سے روانہ ہوئے۔
وکیل کچرینا کے مطابق امریکی دستاویزات افشا کرنے والے ادارے 'وکی لیکس' کی نمائندہ سارہ ہیریسن بھی 30 سالہ سنوڈن کے ہمراہ ہیں۔
امریکی حکام نے کئی بار روسی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ سنوڈن کو اس کےحوالے کرے تاکہ ان سے جاسوسی کے الزام میں تفتیش کی جاسکے۔ امریکی صدر براک اوباما نے بھی بذاتِ خود اپنے روسی ہم منصب ولادی میر پیوٹن سے سنوڈن کو بے دخل کرنے کا مطالبہ کیا تھا جسے روسی صدر نے مسترد کردیا تھا۔
امکان ہے کہ ماسکو حکومت کی جانب سے سنوڈن کو عارضی پناہ دینے کے فیصلے پر امریکہ اور روس کے درمیان تعلقات میں کشیدگی در آئے گی۔
سنوڈن نے دو ماہ قبل امریکی خفیہ ادارے 'نیشنل سیکیورٹی ایجنسی' کے دو خفیہ منصوبوں کے بارے میں ذرائع ابلاغ کو تفصیلات جاری کردی تھیں جس کے تحت لاکھوں امریکی شہریوں کی ٹیلی فون کالوں اور انٹرنیٹ ڈیٹا کی نگرانی کی جارہی تھی۔
ان انکشافات کی اخبارات میں اشاعت سے قبل سنوڈن ہانگ کانگ آگئے تھے جہاں سے وہ 23 جون کو ماسکو پہنچے تھے۔ سنوڈن کا کہنا تھا کہ وہ ماسکو سے لاطینی امریکہ جانا چاہتے ہیں جہاں کے تین ملکوں نے انہیں سیاسی پناہ کی پیش کش کر رکھی تھی۔
لیکن امریکہ کی جانب سے سفری دستاویزات منسوخ کیے جانے کے بعد وہ ماسکو ایئر پورٹ کے رن وے اور 'پاسپورٹ کنٹرول' کے درمیان 'ٹرانزٹ ایریا' میں 39 روز تک مقیم رہے۔
روسی حکام نے ہوائی اڈے کے 'ٹرانزٹ ایریا' کو بین الاقوامی حدود قرار دیتے ہوئے امریکی مطالبے پر سنوڈن کے خلاف کوئی کاروائی کرنے سے معذرت کرلی تھی۔
سنوڈن کے وکیل کے مطابق انہوں نے ہوائی اڈے پر قیام کے دوران میں اپنے موکل کو وقت گزاری کے لیے روسی کتابیں فراہم کردی تھیں جب کہ وہ اپنے طور پر روسی زبان بھی سیکھ رہے تھے۔
سنوڈن کے وکیل اناطولی کچیرینا نے جمعرات کو صحافیوں کو بتایا کہ روسی حکومت نے ان کے موکل کو ایک سال کے لیے عارضی پناہ دینے کا فیصلہ کیا ہے جس کا اطلاق 31 جولائی سے ہوگا۔
روسی حکام کی جانب سے عارضی پناہ کی دستاویزات ملنے کے چند گھنٹوں کے اندر ہی سنوڈن انتہائی خاموشی کے ساتھ اور کسی کی نظروں میں آئے بغیر ماسکو کے ہوائی اڈے سے روانہ ہوگئے جس کے 'ٹرانزٹ لائونج' میں وہ گزشتہ 39 روز سے مقیم تھے۔
اس سے قبل گزشتہ ماہ تین لاطینی ممالک – نکارا گوا، بولیویا اور وینزویلا - نے بھی سنوڈن کو سیاسی پناہ دینے کی پیش کش کی تھی لیکن امریکی حکومت نے سنوڈن کا پاسپورٹ منسوخ کردیا تھا جس کےباعث وہ ماسکو کے ہوائی اڈے پر پھنس کر رہ گئے تھے۔
برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے گفتگو کرتے ہوئے سنوڈن کے وکیل نے بتایا کہ ان کے موکل ماسکو ہوائی اڈے سے ایک محفوظ مقام کی طرف روانہ ہوگئے ہیں جسے خفیہ رکھا جائے گا۔ ان کے بقول سنوڈن روس میں جہاں چاہیں رہ سکتے ہیں اور اپنی جائے قیام کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہیں۔
وکیل کچرینا کے بقول سنوڈن اس وقت روئے زمین پر مطلوب ترین شخص ہیں اور انہیں اپنے تحفظ کے بارے میں ابھی بہت کچھ سوچنا ہے۔
سنوڈن جمعرات کو ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے چین ماسکو ہوائی اڈے پر جمع ہونے والے فوٹو گرافروں اور صحافیوں کی ہجوم کی نظروں میں آئے بغیر ایک عام ٹیکسی کے ذریعے ماسکو کے ہوائی اڈے سے روانہ ہوئے۔
وکیل کچرینا کے مطابق امریکی دستاویزات افشا کرنے والے ادارے 'وکی لیکس' کی نمائندہ سارہ ہیریسن بھی 30 سالہ سنوڈن کے ہمراہ ہیں۔
امریکی حکام نے کئی بار روسی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ سنوڈن کو اس کےحوالے کرے تاکہ ان سے جاسوسی کے الزام میں تفتیش کی جاسکے۔ امریکی صدر براک اوباما نے بھی بذاتِ خود اپنے روسی ہم منصب ولادی میر پیوٹن سے سنوڈن کو بے دخل کرنے کا مطالبہ کیا تھا جسے روسی صدر نے مسترد کردیا تھا۔
امکان ہے کہ ماسکو حکومت کی جانب سے سنوڈن کو عارضی پناہ دینے کے فیصلے پر امریکہ اور روس کے درمیان تعلقات میں کشیدگی در آئے گی۔
سنوڈن نے دو ماہ قبل امریکی خفیہ ادارے 'نیشنل سیکیورٹی ایجنسی' کے دو خفیہ منصوبوں کے بارے میں ذرائع ابلاغ کو تفصیلات جاری کردی تھیں جس کے تحت لاکھوں امریکی شہریوں کی ٹیلی فون کالوں اور انٹرنیٹ ڈیٹا کی نگرانی کی جارہی تھی۔
ان انکشافات کی اخبارات میں اشاعت سے قبل سنوڈن ہانگ کانگ آگئے تھے جہاں سے وہ 23 جون کو ماسکو پہنچے تھے۔ سنوڈن کا کہنا تھا کہ وہ ماسکو سے لاطینی امریکہ جانا چاہتے ہیں جہاں کے تین ملکوں نے انہیں سیاسی پناہ کی پیش کش کر رکھی تھی۔
لیکن امریکہ کی جانب سے سفری دستاویزات منسوخ کیے جانے کے بعد وہ ماسکو ایئر پورٹ کے رن وے اور 'پاسپورٹ کنٹرول' کے درمیان 'ٹرانزٹ ایریا' میں 39 روز تک مقیم رہے۔
روسی حکام نے ہوائی اڈے کے 'ٹرانزٹ ایریا' کو بین الاقوامی حدود قرار دیتے ہوئے امریکی مطالبے پر سنوڈن کے خلاف کوئی کاروائی کرنے سے معذرت کرلی تھی۔
سنوڈن کے وکیل کے مطابق انہوں نے ہوائی اڈے پر قیام کے دوران میں اپنے موکل کو وقت گزاری کے لیے روسی کتابیں فراہم کردی تھیں جب کہ وہ اپنے طور پر روسی زبان بھی سیکھ رہے تھے۔