ایک زمانہ تھا کہ سوویت یونین اور مغربی ملکوں کے جاسوسوں کا تبادلہ مشرقی اورمغربی برلن کے درمیانی پُل ’’جلینکیی برج‘‘ پر ہوا کرتا تھا۔ اب سوویت یونین کا خاتمہ ہو چکا ہے اورجرمنی کے متحد ہونے کے بعد برلن اب ایک بار پھر ایک شہر بن گیا ہے۔
لیکن انٹیلی جنس کی تاریخ کے ماہر یونیورسٹی آف ٹورنٹو کے والٹرریک کہتے ہیں کہ اس تازہ ترین تبادلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ جاسوسوں کے تبادلے کی روایت ابھی زندہ ہے’’ہم اکثر یہ بھول جاتے ہیں کہ جاسوسی اور خفیہ معلومات جمع کرنے کا کام بدستور جاری ہے اور جب یہ دھندا چل رہا ہے تو جلد یا بدیر، جاسوسوں کا تبادلہ بھی کرنا پڑتا ہے۔ لیکن یہ بات ہمارے شعور کا حصہ نہیں رہی۔ اکیسویں صدی کی دنیا میں ہمیں نت نئے خطرات کا سامنا ہے لیکن جاسوسی اور مخبری کو ہم بھول گئے ہیں‘‘۔
جاسوسوں کے تبادلے کے بہت سے فائدے ہیں۔ ریک کہتے ہیں کہ ایک فائدہ یہ ہے کہ اس طرح جمہوری حکومتیں اپنے راز عدالت میں افشا کرنے سے بچ جاتی ہیں’’جاسوسوں پر مقدمہ چلانا بڑا مشکل کام ہے۔ اگر انہیں سزا دلانی ہے تو آپ کوکھلی عدالت میں خفیہ معلومات جمع کرنے کے ذرائع اور اپنے راز بتانے ہوں گے۔ اگر جاسوس اقبالِ جرم کرلے تو آپ خوش قسمت ہیں لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا‘‘۔
انٹیلی جینس ایجنسیوں کے لیے جاسوسوں کے تبادلوں کی اہمیت یہ بھی ہے کہ اس طرح جاسوسوں کو بھرتی کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ پرائیویٹ انٹیلی جینس فرم سٹارٹفار کے تجزیہ کار فریڈ برٹن کہتے ہیں’’فرض کیجیئے کہ آپ سی آئی اے کے افسر ہیں اور آپ روس کے خلاف جاسوسی کے لیے ایجنٹ بھرتی کرنا چاہتے ہیں، تو لوگ سوچیں گے کہ ہم یہ خطرہ مول لیں یا نہیں۔ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ سی آئی اے یا برٹش سیکورٹی سروس والے جھوٹے وعدے نہیں کر رہے ہیں۔ جاسوسوں کے تبادلے سے یہ واضح پیغام ملتا ہے کہ اگر آپ پکڑے گئے توامریکی اور مغربی ملکوں کی انٹیلی جنس ایجنسیاں آپ کی رہائی کے لیے ہر ممکن اقدام کریں گی‘‘۔
لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ روسی جاسوسوں کی گرفتاری اور پھر امریکی جاسوسوں کے عوض ان کے تبادلے کے بہت سے پہلو ایسے ہیں جو سمجھ میں نہیں آتے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ بیشتر جاسوسوں کا تبادلہ ان کی سزایابی کے کئی برس بعد طویل مذاکرات کے بعد ہوتا ہے۔
مثلاً 1962ء میں جب امریکہ کے جاسوس طیارے کے پائلٹ فرینسس گرے پاورزاور سوویت روس کے خفیہ ایجنٹ ریڈولف ایبل کا تبادلہ ’’جلینکیی برج‘‘ پر ہوا تو پاورز کے جہاز کو سوویت میزائل سے گرائے ہوئے دو برس ہو چکے تھے اور نیو یارک میں ایبل کی گرفتاری کو پانچ برس گذر چکے تھے۔
اس کے برخلاف امریکہ میں دس روسی ایجنٹوں کی گرفتاری کو دو ہفتے سے بھی کم ہوئے تھے کہ انہیں مغربی ملکوں کے چار مبینہ جاسوسوں کے عوض روس کے حوالے کر دیا گیا۔ دوسری عجیب بات یہ ہے کہ ان دس روسی جاسوسوں میں سے کسی پھر بھی جاسوسی کا الزام عائد نہیں کیا گیا۔ ان پر محض یہ الزام لگایا گیا کہ وہ ایک غیر ملکی طاقت کے ایجنٹ تھے اور اُنھوں نے اپنا رجسٹریشن نہیں کرایا تھا۔ وہ عدالت میں پیش ہوئے اُنھوں نے اقرارجرم کیا اور انہیں طیارے میں بٹھا کر پہلے ویانا اوروہاں سے روس بھیج دیا گیا۔
سٹارٹفار کے فریڈ برٹن کہتے ہیں کہ کوئی ایسی بات ضرور ہوئی جس کی وجہ سے ایف بی آئی نے ان لوگوں کو جاسوسی کا کوئی جرم کرنے سے پہلے ہی کارروائی کا فیصلہ کر لیا’’وہ کونسے واقعات تھے جن کی وجہ سے یہ کارروائی کرنی پڑی اس بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا ہے۔ میں نے ایسے بہت سے کیس دیکھے ہیں اورمیں جانتا ہوں کہ ایف بی آئی کس طرح کام کرتی ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ایف بی آئی نے ایک روز اچانک فیصلہ کیا کہ ان سب لوگوں کو گرفتار کر لیا جائے۔ یہ سب کسی بڑی اسکیم کا حصہ ہے جس کے بارے میں مجھے علم نہیں ہے۔ لیکن کوئی بات ہے ضرور۔ بس ہمیں اب تک اس کا پتہ نہیں چلا ہے‘‘۔
برٹن کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ کسی اور جاسوس نے روسیوں کو کوئی بات بتا دی ہو، یا کسی اور ایجنٹ نے ایف بی آئی کوئی نئی بات بتائی ہو، یا اس معاملے کا کوئی اور پہلو ہے جسے حکومت خفیہ رکھنا چاہتی ہے۔ وجہ چاہے کچھ ہی کیوں نہ ہو، اسے خفیہ رکھا جا رہا ہے۔ جاسوسی کے کھیل کے اصول یہی ہے۔