امریکہ نے پیر کے روز ایران کے چار اعلیٰ عہدیداروں پر پابندیاں عائد کی ہیں جن کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ سال تہران کی اخلاقی پولیس کے خلاف ان مظاہروں کو وحشیانہ طور پر کچلنے کے ذمہ دار ہیں جو حجاب نہ پہننے کے باعث حراست میں لی گئی ایک نوجوان خاتون کی گرفتاری اور ہلاکت کی وجہ سے ہوئے تھے۔
امریکہ نے ایک پانچویں اہل کار پر بھی پابندی عائد کی ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس نے ایک مقبول آن لائن نیوز سائٹس کو بلاک کر دیا ہے اور صحافیوں اور مخالفوں کی جاسوسی کی ہے۔
محکمہ خزانہ کی یہ کارروائی اس کے بعد سے گیارہویں مرتبہ ہوئی ہے جب امریکہ نے 22 سالہ مہسا امینی کی گزشتہ ستمبر میں ہلاکت سے منسلک ایرانی اہل کاروں کو بلیک لسٹ کیا تھا۔ یہ اقدام برطانیہ کے ساتھ ہم آہنگ تھا ، جس نے ایران کے سینئر حکام کے خلاف اسی طرح کی پابندیاں عائد کیں۔
کئی سو ایرانی مظاہرین سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں میں ہلاک ہو چکے ہیں، ان کے ساتھ بہت کم تعداد میں سیکیورٹی ایجنٹس اور پولیس اہل کار بھی شامل تھے۔
محکمہ خزانہ کے اہل کار برائن نیلسن نے ایک بیان میں کہا کہ ایرانی عوام بر سر اقتدار حکام کی جانب سے پرتشدد انتقامی کارروائیوں اور سینسرشپ کے خطرے کے بغیر اظہار رائے کی آزادی کے حقدار ہیں ۔ امریکہ، برطانیہ جیسے اپنے اہم اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر ایرانی حکومت کے پرتشدد جبر اور سینسر شپ کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی جاری رکھے گا۔
یہ پابندیاں ایرانی حکام کو امریکی فنڈز اور اس املاک کے استعمال سے روکتی ہیں جو ان کی ملکیت ہوسکتی ہیں اور امریکیوں کو ان کے ساتھ کاروبار کرنے کی ممانعت کرتی ہیں ۔
امریکہ نے بلیک لسٹ میں شامل افراد کی شناخت پرویز ابسلان، امان اللہ گوشتسبی اورپاسداران انقلاب کے احمد سیدوشہدا ، تہران پولیس ریلیف یونٹ کے کمانڈر سلمان عدینہوند، ہجوم کو کنٹرول کرنے اور احتجاج کو دبانے کے بنیادی حفاظتی ادارے کے انچارج، اور سائبر اسپیس کے سربراہ سید آغامیری کے طور پر کی ۔
وی او اے نیوز