عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ایک امریکی فوجی سیٹلائیٹ نے گزشتہ ہفتہ جزیرہ نما سینا میں روسی طیارہ گر کر تباہ ہوتے وقت ایک شعلے کا سراغ لگایا تھا لیکن اس حادثے کی اصل وجہ تا حال ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔
حکام نے ایسے کسی بھی امکان کو مسترد کر دیا ہے کہ اس طیارے کو 9400 میٹر کی بلندی پر ٹکڑوں میں تبدیل ہونے سے قبل کوئی میزائل لگا تھا۔ نہ ہی کوئی میزائل داغے جانے اور نہ ہی انجن کے جلنے کی کسی طرح سے نشاندہی ہوئی ہے۔
ہفتہ کو یہ خصوصی پرواز 224 افراد کو لے کر مصر کے شہر شرم الشیخ سے روسی شہر سینٹ پیٹرزبرگ جا رہی تھی کہ جزیرہ نما سینا میں گر کر تباہ ہو گئی اور اس پر سوار تمام افراد ہلاک ہو گئے۔
ماہرین نے امریکی ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ یہ شعلہ جہاز پر پیش آنے والے کسی واقعے جیسا کہ بم دھماکے، انجن کو آگ لگنے یا جہاز میں آگ لگنے سے اٹھ سکتا ہے، یا اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جب جہاز کے ٹکڑے زمین سے ٹکرائے۔
مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے شدت پسند گروپ داعش کی طرف سے اس مسافر طیارے کو مار گرانے کے "پروپیگنڈے" کو مسترد کیا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے "بی بی سی" سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ "جب اس طرح کا پروپیگنڈہ ہو کہ یہ تباہی داعش کی وجہ سے ہوئی، تو یہ مصر کی سلامتی و استحکام اور ساکھ کو متاثر کرنے کی ایک کوشش ہے۔ یقین کیجیے سینا میں صورتحال خاص طور پر اس محدود علاقے میں صورتحال ہمارے کنٹرول میں ہے۔"
تفتیش کاروں نے تباہ شدہ طیارے کے ملنے والے فلائیٹ ریکارڈرز کا تجزیہ شروع کر دیا ہے۔
ادھر روس کے صدر ولادیمر پوتن نے عزم ظاہر کیا ہے کہ اس واقعے کی مکمل تحقیقات کی جائیں گی اور حقائق تک پہنچا جائے گا۔ "ہمیں معلوم کرنا ہے کہ ہوا کیا تھا، جس کے بعد ہی ہم صحیح سمت میں ردعمل دیں گے۔"
روسی حکام کا کہنا ہے کہ تحقیقات کا دائرہ طیارے کے گرد پورے علاقے تک پھیلا دیا گیا ہے جب کہ مصری حکام کی مدد کے لیے روسی ماہرین کی ٹیم بھی وہاں موجود ہے۔