امریکہ کے وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ ٹیلی فون پر بات کی ہے اور خطے میں امن اور استحکام کے باہمی مقصد پر تبادلۂ خیال کیا ہے۔
امریکی محکمۂ دفاع پینٹاگان کے پریس سیکریٹری جان کربی نے پیر کو جاری کردہ ایک بیان میں بتایا ہے کہ وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں فروغ اور خطے میں مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے شراکت داری استوار کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
جان کربی کے مطابق وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن اور جنرل قمر جاوید باجوہ نے افغانستان کی موجودہ صورتِ حال، علاقائی امن و استحکام اور دو طرفہ دفاعی تعلقات پر تبادلۂ خیال کیا۔
پاکستان فوج کی جانب سے اب تک اس بات چیت کے بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ اور امریکی وزیرِ دفاع کے درمیان بات چیت ایسے موقع پر ہوئی ہے جب طالبان عسکریت پسندوں نے افغانستان کے چھ صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کر لیا ہے۔
امریکہ کے محکمۂ خارجہ نے پیر کے روز بتایا ہے کہ افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد قطر کے لیے روانہ ہو گئے ہیں جہاں وہ طالبان پر زور دیں گے کہ وہ اپنی جارحیت بند کریں اور سیاسی تصفیے کے لیے بات چیت کریں۔
محکمۂ خارجہ نے مزید بتایا کہ تین روز پر محیط مذاکرات میں مختلف ممالک اور مختلف تنظیموں کے نمائندے اس بات پر زور دیں گے کہ افغانستان میں جاری تشدد میں کمی لائی جائے اور فوری طور پر جنگ بندی کی جائے۔ مذاکرات کے دوران اس بات پر بھی زور دیا جائے گا کہ افغانسان میں طاقت کے ذریعے مسلط ہونے والی حکومت کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ طالبان ملک میں دوبارہ سخت اسلامی قوانین کے نفاذ کے لیے لڑ رہے ہیں اور ایسے میں اپنی مہم تیز کیے ہوئے ہیں جب غیر ملکی فورسز کے انخلا کا عمل مکمل ہونے والا ہے۔
امریکہ کے صدر جو بائیڈن کہہ چکے ہیں کہ افغانستان کے اندر امریکی مشن 31 اگست تک ختم ہو جائے گا۔ ان کا مؤقف ہے کہ افغان عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا ہے اور وہ امریکہ کی ایک اور نسل کو 20 سال سے جاری جنگ میں نہیں دھکیلیں گے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق طالبان نے پیر کے روز شمالی صوبے سمنگان کے دارالحکومت پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔
ایک افغان قانون ساز ضیاءالدین ضیا نے 'رائٹرز' سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ طالبان اس وقت پولیس ہیڈ کوارٹرز اور صوبائی گورنر کے دفتر پر قبضے کے لیے لڑ رہے ہیں۔
طالبان پہلے ہی صوبے قندوز اور ہلمند صوبے کے دارالحکومت لشکر گاہ پر قبضہ کر چکے ہیں۔
امریکی عہدیداروں نے اپنا نام صیغہ راز میں رکھنے کی شرط پر 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ اگرچہ فوج نے صدر جو بائیڈن کو اس سال کے شروع میں بتا دیا تھا کہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان کے صوبائی دارالحکومت طالبان فتح کر سکتے ہیں تاہم وہ اس بات پر حیران ہیں کہ طالبان اس قدر جلد قابض ہو سکتے ہیں۔
ادھر پینٹاگان کے ترجمان جان کربی نے کہا ہے کہ امریکہ کو افغانستان سے آنے والی خبروں پر گہری تشویش ہے لیکن افغانستان کی فورسز میں یہ اہلیت ہے کہ وہ حملہ آور گروہوں کے خلاف لڑ سکیں۔
ان کے بقول "یہ افغانستان کی ملٹری فورسز ہیں، یہ ان کے صوبائی دارالحکومت ہیں، ان کے لوگ ہیں جن کا دفاع کیا جانا ہے اور اب واقعی بات قیادت تک آ پہنچی ہے کہ وہ اس خاص وقت میں ابھر کر سامنے آئیں۔"
جب ان سے سوال کیا گیا کہ اگر افغان سیکیورٹی فورسز طالبان کا مقابلہ نہیں کر سکیں تو اس صورت میں امریکی فوج کیا کر سکتی ہے؟ اس پر جان کربی نے کہا "کچھ زیادہ نہیں۔"
جان کربی نے بتایا کہ وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے افغانستان کی صورتِ حال پر کئی ملکوں کے رہنماؤں سے تبادلۂ خیال کیا ہے اور اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ تاہم وہ اب بھی یقین رکھتے ہیں کہ افغانستان کی فورسز میں یہ اہلیت ہے کہ وہ میدان جنگ میں بڑا فرق ڈال سکیں۔
جان کربی کے بقول وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ جس حد تک ان کے پاس مینڈیٹ ہے، اس کے اندر رہتے ہوئے وہ افغان فورسز کی مدد جاری رکھیں گے۔
افغانستان پر دوحہ مذاکرات کا نیا دور، تجزیہ کار کتنے پر امید ہیں؟
امریکہ کے سیکریٹری دفاع لائیڈ آسٹن اور پاکستانی فوج کے سربراہ جنر ل باجوہ کے درمیان رابطہ ایک ایسے وقت ہوا جب افغانستان کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے امریکہ، چین ، روس اور پاکستان پر مشتمل توسیعی ٹرائیکا کا اجلاس11 اگست کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں منعقد ہو گا۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پیر کو ایک نیوز کانفرنس میں دوحہ میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان کی شرکت کی تصدیق کی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ توسیعی ٹرائیکا کےاجلاس کا مقصد طالبان کوبین الاقوامی برادری کی طرف سے ایک متفقہ پیغام دینا ہے کہ وہ تشدد کی کارروائیاں روک کر افغان امن مذکرات میں شامل ہوں۔
بین الااقوامی امور کے پاکستانی تجزیہ کار زاہد حسین دوحہ میں خطے کے ملکوں کے اجلاس کی ٹائمنگ کو اہم قرار دے رہے ہیں۔ یہ اجلاس ایسے وقت پر ہو رہا ہے جب طالبان اپنی عسکری کارروائیاں روکنے پرآمادہ نہیں اور اقوام متحدہ کے امدادی ادارے افٖغانستان میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال پر زبردست تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔
زاہد حسین کے مطابق، یہ ان ممالک کا اجلاس ہے جن کے افغانستان کے امن سے کئی مفادات وابستہ ہیں اور ابھی تک ایسے کوئی آثار نہیں کہ طالبان مذکرات کی میز پر آئیں گے، تاہم خطے کے ملکوں روس، چین اورپاکستان کے افغانستان کے ساتھ تعلقات اور رابطے ہیں، اس لیے ان ملکوں کی جانب سے طالبان پر دباؤ افغانستان میں تشدد کم کرنے کے لیے اہم ہوسکتا ہے۔ ان کےبقول تمام علاقائی ممالک کی خواہش ہے کہ افغانستان میں تشدد کم ہو اورطالبان کو افغانستان کا کنٹرول طاقت کے زور پر حاصل کرنے سے روکا جائے۔
(اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں)۔