امریکہ اور برطانیہ نے افغانستان میں جاری لڑائی کے پیشِ نظر اپنے شہریوں سے کہا ہے کہ وہ فوری طور پر افغانستان چھوڑ دیں اور اس مقصد کے لیے کمرشل پروازوں سے استفادہ کریں۔
وائس آف امریکہ کی عائشہ تنظیم کی رپورٹ کے مطابق ہفتے کو کابل میں امریکی سفارت خانے کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ سیکیورٹی وجوہات اور اسٹاف کی کمی وجہ سے افغانستان میں موجود امریکی شہریوں کی مدد کرنے کی صلاحیت محدود ہو چکی ہے۔
خیال رہے کہ رواں برس اپریل میں افغانستان کی صورتِ حال کے پیشِ نظر کابل میں امریکی سفارت خانے کے عملے کو ملک سے باہر کسی بھی جگہ پر سفارت خانے کے اُمور سرانجام دینے کی ہدایت کی گئی تھی۔
ادھر کابل میں برطانوی سفارت خانے کے ایک اہل کار کا کہنا تھا کہ اب ہم پر یہ واضح ہو چکا ہے کہ صورتِ حال غیر واضح ہے۔
امریکہ اور برطانیہ افغان جنگ کے دوران مختلف مواقع پر اپنے شہریوں کے لیے سفری ہدایات جاری کرتے رہے ہیں۔
رواں برس مئی میں امریکی صدر کی جانب سے افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا مکمل کرنے کے اعلان کے بعد طالبان کی کارروائیوں میں تیزی آئی ہے۔
طالبان افغانستان کے 85 فی صد علاقے پر کنٹرول حاصل کرنے کے دعوے کے بعد اب صوبائی دارالحکومتوں کی جانب بھی پیش قدمی کر رہے ہیں۔
اتوار کو طالبان نے دعویٰ کیا تھا کہ اُنہوں نے صوبہ جوزجان کے دارالحکومت شبرغان کے بعد قندوز اور سرِ پل پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔
البتہ افغان حکومت نے طالبان کے ان دعوؤں کی تردید کی تھی۔
طالبان کی جانب سے حالیہ پیش قدمی کے دوران اُن کی جانب سے اپنے سیاسی مخالفین کو قتل کرنے کے الزامات بھی سامنے آ ر ہے ہیں۔
جمعے کو طالبان نے افغان حکومت کے میڈیا انفارمیشن سینٹر کے ڈائریکٹر داوا خان مینہ پال کے قتل کی بھی ذمے داری قبول کی تھی۔
اس سے قبل افغانستان کے قائم مقام وزیر دفاع بسم اللہ خان محمدی کے گھر پر بھی بم حملہ کیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں اور سرکاری ملازمین کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں بھی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
ادھر ہفتے کو کابل میں امریکی سفارت خانے کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں طالبان کی مہم جوئی کی مذمت کی گئی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ طالبان کی یہ کارروائیاں افغان دھڑوں کے ساتھ افغان تنازع کے پرامن سیاسی تصفیے کے وعدے کی نفی ہیں۔
بیان میں فوری جنگ بندی پر زور دیتے ہوئے مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا حل تلاش کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔
امریکی سفارت خانے کے بیان میں کہا گیا ہے کہ فریقین کو ایسے سیاسی تصفیے پر بات چیت کرنی چاہیے جو نہ صرف افغان عوام کی مشکلات کم کرے بلکہ افغانستان کو دوبارہ دہشت گردوں کی آماجگاہ بننے سے روکے۔