امریکہ اور ایران ایک دوسرے کو 2015 کے جوہری معاہدے پر واپس لانے کے لیے بالواسطہ مذاکرات کا دوسرا دور اگلے ہفتے ویانا میں کرنے پر رضا مند ہو گئے ہیں۔
ایران کا مطالبہ ہے کہ امریکہ، ایران پر عائد کردہ تمام پابندیوں کو ہٹائے۔ تاہم امریکہ کا کہنا ہے کہ ایران کا یہ مطالبہ تعطل کا باعث بن سکتا ہے۔
امریکہ کی وزارتِ خارجہ کے ایک عہدیدار نے صحافیوں سے جمعے کو گفتگو کرتے ہوئے کہا ایران اور امریکہ کے درمیان بالواسطہ مذاکرات آسٹریا کے شہر ویانا میں آئندہ ہفتے کے وسط میں شروع ہوں گے۔
عہدیدار کے مطابق ایران اور امریکہ کے سفارت کاروں کے درمیان ابتدائی مذاکرات کا دور جمعے کو ختم ہوا جس میں یورپی یونین کے ثالثین کی طرف سے فریقین کو پیغامات دیے گئے۔
خیال رہے کہ امریکہ اور ایران کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کا آغاز گزشتہ ہفتے منگل کو ویانا میں ہوا تھا جس میں ایران نے معاہدے میں شامل دیگر پانچ ممالک برطانیہ، فرانس، جرمنی، چین اور روس کے مندوبین سے ملاقاتیں کی تھیں۔ جب کہ ان ممالک کے مندوبین نے امریکی سفارت کاروں سے بھی علیحدہ ملاقاتیں کیں۔
امریکہ کے علاوہ معاہدے میں شامل ان ممالک کا ایران سے مطالبہ ہے کہ وہ جوہری سرگرمیوں کو ترک کرے۔ تاکہ ان ممالک کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں میں نرمی کی جا سکے۔
واضح رہے کہ 2018 میں امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے نکل جانے کے بعد ایران پر پابندیاں عائد کر دی تھیں جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے تھے۔
سابق صدر ٹرمپ نے ایران پر غیر قانونی بیلسٹک میزائل پروگرام بنانے اور خطے میں دہشت گردی کی پشت پناہی کے الزامات لگاتے ہوئے معاشی پابندیاں عائد کی تھیں۔
ایران نے ان پابندیوں کو رد کرتے ہوئے جوہری سرگرمیوں میں اضافہ کر دیا تھا۔
امریکی عہدیدار نے امریکہ اور ایران کے درمیان ہونے والے بالواسطہ مذاکرات کو فائدہ مند اور تعمیری قرار دیا ہے۔
عہدیدار کے مطابق یورپی ثالثین دونوں ممالک کے درمیان ان بالواسطہ مذاکرات کے دوران دو ہوٹلوں میں ان کے پیغامات کا تبادلہ کرتے رہے۔
عہدیدار کے مطابق مذاکرات کے دوران ایسے خیالات کا تبادلہ کیا گیا جن کے ذریعے امریکہ، ایران پر عائد کردہ پابندیاں ہٹانے سے متعلق رہنمائی حاصل ہو سکے۔
صحافیوں سے گفتگو میں عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ کی طرف سے کچھ خاص پابندیوں کے ہٹائے جانے سے متعلق کوئی فہرست فراہم نہیں کی گئی اور نہ ہی ایران کی طرف سے ایسی کوئی فہرست مہیا کی گئی جس کے مطابق وہ جوہری معاہدے کی کی جانے والی خلاف ورزیوں کو روکے گا۔
عہدیدار کے بقول امریکہ وہ تمام پابندیاں ہٹانے کے لیے تیار ہے جن پر معاہدے میں شریک ممالک کو اعتراض نہیں ہے۔ تاہم عہدیدار نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ کیا ایران بھی اس پیش کش کے بدلے میں مطلوبہ اقدامات کرے گا؟
ان مذاکرات میں ایران کی قیادت کرنے والے نائب وزیر خارجہ عباس اراگچی کے حوالے سے جمعے کو ایران کے نشریاتی ادارے ‘پریس ٹی وی’ نے کہا تھا کہ تہران معاہدے پر کلی طور پر عمل کر سکتا ہے اگر امریکہ عائد کردہ پابندیوں کو ہٹا دے۔
عباس کا مزید کہنا تھا کہ ایران ان پابندیوں کو ہٹائے جانے کی تصدیق چاہے گا۔
دوسری طرف امریکی حکام کی طرف سے اس مطالبے کو رد کیا گیا ہے اور بائیڈن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے ایران پر لگائے جانے والی کچھ پابندیاں جائز ہیں۔
پریس ٹی وی کا مزید کہنا تھا کہ تہران ان مذاکرات کو درست سمت کی طرف بڑھتا ہوا سمجھتا ہے۔