امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعے کے روز کہا ہے کہ امریکہ ایران کے ساتھ دو ہزار پندرہ کے ایٹمی معاہدے میں شامل ہونے کے لئے بات چیت دوبارہ شروع کرنے کی طرف اس خواہش کے ساتھ بڑھ رہا ہے کہ ایسا کوئی غلط قدم نہ اٹھا لیا جائے، جس سے مشرق وسطی میں عدم استحکام میں اضافہ ہو جائے۔
بائیڈن نے جرمنی کے شہر میونخ میں ہونے والی ورچوئل سیکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "ہمیں ایسی شفافیت اور روابط کی ضرورت ہے، جس سے کسی سٹریٹیجک غلط فہمی یا غلطی کی گنجائش کم سے کم کی جا سکے"۔
بائیڈن نے ان خیالات کا اظہار ایران کے وزیر خارجہ جاوید ظریف کی اس ٹویٹ کے بعد کیا ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر امریکہ ایران کے خلاف عائد کردہ پابندیاں اٹھا لے تو ایران عالمی طاقتوں کے ساتھ کئے جانے والے ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی پر مبنی تمام اقدامات واپس لے لے گا۔
جاوید ظریف نے ٹویٹر پر اہنے بیان میں مطالبہ کیا تھا کہ "امریکہ کسی شرط کے بغیر ، موثر طور پر ان تمام شرائط کو واپس لے لے، جو ٹرمپ نے ایران پر عائد کی تھیں۔تب ہی ایران اپنے تمام جوابی اقدامات واپس لے گا"
اس سے قبل وائٹ ہاؤس نے کہا تھا کہ امریکہ ایران کے ساتھ اس معاہدے کی بحالی چاہتا ہے، جس سے وہ خود تین سال پہلے دستبردار ہو گیا تھا۔
واشنگٹن ڈی سی کے مطابق وہ ایران کے ساتھ اس بارے میں مذاکرات کے لیے تیار ہے کہ دونوں ممالک 2015 میں ہونے والے اس معاہدے کی طرف لوٹ آئیں جس کا مقصد تہران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے دور رکھنا تھا۔
یہ پیش رفت امریکی انتظامیہ میں تبدیلی کی عکاس ہے۔
امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن صدر جو بائیڈن کے اس مؤقف کو اجاگر کر رہے ہیں کہ اگر تہران معاہدے کی مکمل تعمیل کرتا ہے۔ تو امریکہ باضابطہ طور پر جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) سے موسوم معاہدے کی طرف لوٹ سکتا ہے۔
امریکہ کے وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن کی جانب سے ای تھری سے معروف برطانیہ، فرانس، جرمنی کے گروپ کے وزرائے خارجہ کے اجلاس سے وڈیو خطاب پر ایران نے بھی مثبت ردِ عمل دیا ہے۔
چار ملکی وزرائے خارجہ کے اجلاس کے بعد مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ اگر ایران جے سی پی او اے معاہدے کے تحت اپنے وعدوں کی مکمل پاسداری کرتا ہے تو امریکہ بھی ایسا ہی کرے گا اور وہ ایران کے ساتھ مذاکرات کا حصہ بننے کے لیے تیار ہے۔
ایران نے 2019 میں اس معاہدے کی خلاف ورزی کرنا اس وقت شروع کی تھی جب امریکہ کے سابق صدر ٹرمپ نے اس سے ایک سال قبل واشنگٹن کو معاہدے سے الگ کر لیا تھا اور ایران پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ ایران کی طرف سے خلاف ورزیوں میں حالیہ مہینوں میں تیزی آئی ہے۔
ایک امریکی عہدیدار نے خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو بتایا کہ واشنگٹن ڈی سی مذاکرات کی ایسی کسی بھی دعوت کا مثبت جواب دے گا جس میں برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی، روس اور امریکہ جیسی طاقتوں کے ایران سے ہونے والے حقیقی معاہدے پر مذاکرات ہوں گے۔
چار ملکی مشترکہ بیان کا جواب دیتے ہوئے ایران کے وزیرِ خارجہ محمد جواد ظریف نے کہا کہ اس معاملے میں پہلا قدم امریکہ کو اٹھانا چاہیے۔
ایک ٹوئٹ میں ایران کے وزیرِ خارجہ نے کہا کہ ظاہری شائستگی دکھانے اور تمام تر ذمہ داری ایران پر ڈالنے کے بجائے ای تھری اور یورپی یونین کو چاہیے کہ وہ اپنے وعدوں کی پاسداری کریں اور ایران کے خلاف ٹرمپ کی عائد کردہ پابندیوں کا خاتمہ کریں۔
جواد ظریف نے معاہدے کی بحالی کے لیے اس سے قبل واشنگٹن ڈی سی اور فریقوں کے ساتھ بات چیت پر آمادگی کا اشارہ دیا تھا۔
امریکی عہدیدار نے یہ بھی اشارہ دیا کہ اس بارے میں آگے بڑھنے کا راستہ نکالا جا سکتا ہے جو تعطل کے خاتمے اور معاہدے کی طرف جانے کے لیے پل کا کردار ادا کرے۔ ان کے خیال میں ایسا ہو سکتا ہے اگر امریکہ ایران پر اقتصادی پابندیوں میں نرمی کر دے اور ایران اپنے جوہری پروگرام کو محدود کر لے۔
یورینیم کی افزودگی
ایک فرانسیسی سفارتی ذریعے نے بتایا ہے کہ واشنگٹن کی حکمت عملی میں تبدیلی ایران کے لیے ایک نیا موقع پیدا کر رہی ہے لیکن آگے کا راستہ رکاوٹوں سے بھرپور ہے۔
تہران نے بائیڈن انتظامیہ کے لیے آئندہ ہفتے کی مہلت دے رکھی ہے کہ ٹرمپ کی طرف سے عائد کردہ پابندیاں ہٹا دے بصورت دیگر تہران معاہدے کی خلاف ورزی میں بڑا قدم اٹھائے گا اور اقوام متحدہ کے جوہری امور کے نگران ادارے کی مختصر نوٹس پر انسپکشن پر پابندی لگا دے گا۔
برطانیہ، فرانس، جرمنی اور امریکہ نے ایران پر زور دیا ہے کہ وہ اس اقدام سے گریز کرے۔ ان ممالک نے ایران کی جانب سے 20 فی صد تک یورینیم کی افزودگی اور یورینیم میٹل تیار کرنے پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔
یورینیم کی زیادہ افزودگی اور خام ایندھن کی صفائی جوہری ہتھیار بنانے کی جانب ایک ممکنہ راستہ ہوتا ہے اگرچہ ایران ایک مدت سے کہتا آیا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف توانائی کی ضروریات کے لیے ہے۔
امریکی حکام نے ایران کے لیے کچھ مصالحانہ اشارے دیے ہیں جیسا کہ اقوام متحدہ میں ایران کے سفارت کاروں پر نقل و حرکت کی پابندیوں کو نرم کرنا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے 2019 میں سفارتی عملے پر جو پابندیاں عائد کی تھیں وہ ان کو نیویارک کے ایک چھوٹے سے علاقے تک محدود کر دیتی تھیں۔
امریکی حکام نے 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کا ایران کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ یو این مشن کو نوٹیفکیشن بھجوایا گیا ہے جو سفری پابندیوں میں نرمی کا متقاضی تھا۔