امریکہ نے سعودی عرب کے میونسپل انتخابات میں خواتین کی شرکت اور اُن کے انتخاب کو ایک "تاریخی سنگ میل" قرار دیتے ہوئے سراہا ہے۔
ہفتے کو منعقد ہونے والے مقامی کونسلوں کے انتخابات اس حوالے سے ملکی تاریخ کے پہلے انتخابات تھے کہ ان میں ناصرف خواتین کو ووٹ ڈالنے بلکہ اُنھیں بطور اُمیدوار حصہ لینے کی اجازت بھی تھی۔
امریکی وزارت خارجہ کی طرف سے اتوار کو جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ "خواتین کی شمولیت سعودی عرب میں ایک ہمہ گیر انتخابی عمل کی طرف پیش رفت کی عکاس ہے جو اس بات کو یقینی بنائے گی کہ شہریوں کی (ایسی) حکومت میں نمائندگی ہو جو سب شہریوں کو جواب دہ ہو۔"
اتوار کو جاری ہونے والے انتخابی نتائج کے مطابق ان انتخابات میں کم از کم 17 خواتین کامیاب ہوئی ہیں۔
سلمی بنت حزاب العتیبی پہلی خاتون تھیں جن کی حتمی کامیابی کا اعلان کیا گیا اور وہ مدرکہ کی کونسل کی رکن منتخب ہوئیں جبکہ ان کے مخالف امیدواروں میں سات مرد اور دو خواتین شامل تھیں۔ مدرکہ مکہ کے مقدس شہر سے 150 کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے اور بطور ووٹر اندراج کروانے میں مشکلات کے باوجود مقامی کونسلوں کی 2,000 نشستوں کے لیے تقریباً 6,000 امیدواروں میں سے تقریباً 900 خواتین تھیں۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم کا کہنا ہے کہ ووٹ کے اندراج کے لیے قائم مراکز کی دوری اور شناختی کارڈ کی شرط جو کئی خواتین کے پاس نہیں تھے اس عمل میں ان کی شرکت کے راستے میں رکاوٹ کا باعث بنے۔
سعودی حکام کے مطابق ہفتے کو منعقد ہونے والے انتخابات کے لیے تقریباً 130,000 خواتین کا بطور ووٹر اندارج ہوا جو مرد رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد کا دسواں حصہ ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی مشرق وسطیٰ کی ڈائریکٹر سارہ لیا وٹسن نے کہا کہ سعودی معاشرے میں مرد و خواتین میں سیاسی اور ثقافتی علیحدگی "خواتین کی اس عمل میں شرکت اور عورتوں کے حقوق کے حوالے سے اصلاحات کے عمل میں تیزی لانے کی راہ میں حائل ہے"۔
سعودی عرب میں رائے دہی کے عمل کا انعقاد بہت ہی کم بار ہوا ہے۔ ہفتے کو ہونے والے انتخابات سعودی عرب کی مقامی کونسلوں کے تیسرے انتخابات تھے جن میں شہریوں نے حصہ لیا۔ سعودی عرب کے مرحوم بادشاہ عبداللہ نے 2011 میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کی جازت دینے کا فرمان جاری کیا تھا۔