کرونا وائرس کا پھیلاو روکنے کے لئے امریکہ کے تمام تعلیمی اداروں کو مکمل یا جزوی طور پر بند کر دیا گیا ہے، جبکہ بچوں کو گھر سے تعلیم دی جا رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن اور گھر سے تعلیم بچوں کی ذہنی صحت کو براہ راست متاثر کر رہی ہے۔
سال کے آغاز میں خبر رساں ادارے رائیٹرز نے 22 لاکھ طلبا سے سروے کیا، جس میں چھوٹے بڑے شہروں سے لے کر دیہی اور شہری علاقوں کے طلبا بھی شامل تھے۔ سروے میں بچوں کی اکثریت میں ذہنی مسائل کے آثار دیکھنے میں آئے۔
سروے کے مطابق، بچوں میں غیر حاضر دماغی، عدم دلچسپی، تنہائی اور پریشانی اور افسردگی جیسے مسائل دیکھے گئے۔
امریکہ بھر میں اساتذہ اس معاملے پر متفق ہیں کہ بچوں کی دماغی صحت کو ترجیح دی جائے، جس کے لیے اسکولوں میں اساتذہ کے لئے ذہنی صحت سے متعلق تربیت کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
بچوں کو درپیش دماغی مسائل کے خدشات کے پیش نظر کئی ذرائع سے مالی امداد بھی دی جا رہی ہے، تاکہ بچوں کی دماغی صحت کی بہتری کے لئے اسکولوں کو وسائل اور سہولیات فراہم کی جا سکیں۔
وفاقی حکومت کی جانب سے جاری کئے جانے والے کووڈ ریلیف فنڈ میں 122 ارب ڈالر مختص کئے گئے ہیں تاکہ بچوں کی معاشرتی، جذباتی اور ذہنی صحت کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات کئے جا سکیں۔ اپریل میں صدر کی جانب سے پیش کئے جانے والے بجٹ میں سرکاری اسکولوں میں نرسوں کی خدمات اور ذہنی صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے لئے ایک ارب ڈالر کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
امریکی ریاست یوٹاہ میں مارچ میں ایک بل پر دستخط کئے گئے جس کے تحت ذہنی صحت کو اسکول سے چھٹی کے لئے جائز وجہ بنانے کی منظوری دی گئی، جب کہ کنیٹی کٹ اور میری لینڈ کی امریکی ریاستوں سمیت دیگر ریاستوں میں بھی ایسی ہی قانون سازی کی گئی ہے۔
اگلے ماہ، نیشنل سنٹر فار اسکول مینٹل ہیلتھ کلاس روم ڈبلیو ایس ای کا آغاز کرے گا۔ یہ مفت آن لائن کورس امریکی اساتذہ اور اسکول کے عملے کو تربیت فراہم کرے گا کہ کس طرح کلاس رومز میں محفوظ اور دوستانہ ماحول پیدا کیا جائے، تاکہ پریشانی اور دماغی مسائل سے دوچار طالب علموں کی مدد کی جائے۔
سینٹر فار اسکول مینٹل ہیلتھ کی شریک ڈائریکٹر شیرون ہوور کا کہنا ہے کہ کرونا کی وبا، ذہنی صحت کے شعور اور وسائل کے لئے ’وٹامن ڈی کی دوا‘ ثابت ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کامیابی کے لئے اس معاملے پر مستقل توجہ کی ضرورت ہوگی۔
ہوور نے کہا کہ ’’اگر ہمیں لگتا ہے کہ ایک اسکول کے دروازے کھلنے کے ساتھ ہی چیزیں معمول پر آجائیں گی تو ہم اپنے ساتھ مذاق کر رہے ہیں۔‘‘