امریکہ کی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سربراہ سینیٹر جان مکین جلد پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں جسے دونوں ملکوں کے درمیان حالیہ مہینوں میں در آنے والی کشیدگی کے تناظر میں اہم تصور کیا جا رہا ہے۔
جمعرات کو اسلام آباد میں دفترخارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں ایک سوال کے جواب میں سینیٹر مکین کے دورہ پاکستان کی خبروں کی تصدیق تو کی لیکن انھوں نے اس کی تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔
یہ دورہ ایسے وقت ہونے جا رہا ہے جب امریکہ کی طرف سے خاص طور پر ایف 16 لڑاکا طیاروں کی پاکستان کو فروخت میں زراعانت روکے جانے اور پھر اتحادی اعانتی فنڈ کی مد میں امداد کو مشروط کرنے جیسے معاملات کی وجہ سے دوطرفہ تعلقات میں کسی قدر تناؤ دیکھا جا رہا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ نفیس ذکریا کا کہنا تھا کہ امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو کسی ایک معاملے کے تناظر میں دیکھنا مناسب نہیں۔
انھوں نے کہا کہ ان طیاروں کی پاکستان کو فراہمی کی منظوری دی جا چکی تھی لیکن دوسرے مرحلے میں اس خریداری کے لیے وسائل سے متعلق معاملات آگے نہ بڑھ سکے تھے۔
"ہم نے کبھی نہیں کہا کہ دروازہ بند ہو گیا ہے۔ پاکستان میں متعدد عہدیداروں نے اس سلسلے میں مختلف ذرائع اور آئندہ کے لائحہ عمل پر بیانات بھی دیے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو صرف کسی ایک معاملے کے تناظر میں نہ دیکھیں۔"
حالیہ ہفتوں میں ایک بار پھر امریکی قانون سازوں کی طرف سے ایسے بیانات سامنے آئے ہیں جن میں دہشت گردوں کے خلاف پاکستان کی طرف سے امتیاز برتنے کا دعویٰ کرتے ہوئے اپنی سرزمین سے دہشت گرد کارروائیوں کو روکنے کے لیے مزید اقدام کرنے پر زور دیا گیا۔
تاہم اسلام آباد کا موقف ہے کہ وہ تمام دہشت گردوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کر رہا ہے اور اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کے اپنے عزم پر قائم ہے۔
بین الاقوامی امور کی ماہر اور سینیئر تجزیہ کار ڈاکٹر ہما بقائی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ خطے کی موجودہ صورتحال اور آنے والے بننے والی نئی مساوات کے تناظر میں ضروری ہے کہ امریکہ پاکستان سے متعلق اپنی سوچ میں پر نظرثانی کرے۔
ادھر امریکہ میں ایک پاکستانی نجی ٹی وی چینل "دنیا نیوز" کے میزبان سے گفتگو میں سینیٹر جان مکین کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بہت اہم ہیں اور ان کے بقول ماضی کی نسبت دوطرفہ تعلقات خاصے بہتر ہیں۔