امریکہ کے کلیدی قانون سازوں کا ایک وفد، جس کی قیادت سینیٹر جان مکین کر رہے ہیں، اتوار کے روز پاکستان کا دورہ کیا جہاں اُنھوں نے چوٹی کے سرکاری اور فوجی اہل کاروں سے ملاقات کی، جس دوران باہمی تعلقات، انسداد دہشت گردی کے سلسلے میں تعاون اور افغانستان میں امن اور سلامتی کو فروغ دینے کی کوششوں پر بات چیت ہوئی۔
یہ دورہ ایسے وقت کیا گیا جب صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی انتظامیہ اس ماہ کے اواخر میں افغان جنگ کی نئی حکمتِ عملی کا اعلان کرنے والی ہے، جب کہ یہ الزامات لگ رہے ہیں کہ پاکستانی سرزمین پر موجود محفوظ پناہ گاہیں طالبان کی بغاوت کو قائم رکھنے اور اس میں تیزی لانے کا موجب بن رہی ہیں۔
امریکی سینیٹروں نے وزارتِ خارجہ میں تفصیلی مذاکرات کیے جہاں پاکستان کی سربراہی، امورِ خارجہ کے مشیر سرتاج عزیز نے کی۔ یہ بات ملاقات کے بعد جاری ہونے والے ایک بیان میں کہی گئی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ سرتاج عزیز نے دہشت گردی کے خلاف پاکستانی سلامتی افواج کی کامیابی کے بارے میں بریفنگ دی اور اُنھیں بتایا کہ ''دہشت گرد نیٹ ورک تباہ کیے گئے ہیں اور محفوظ پناہ گاہوں کا صفایا کیا گیا ہے''۔
مشیر نے مہمانوں کو بتایا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ ''تعمیری'' بات چیت کا منتظر ہے، جن کوششوں کا مقصد افغانستان میں استحکام اور خوش حالی کو فروغ دینا ہو۔
اُنھوں نے اس بات کی جانب توجہ دلائی کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنی پارٹنرشپ کو مضبوط اور گہرا کرنے کے لیے بھی تیار ہے، تاکہ داعش کے دہشت گردوں کو ''خطے میں اپنے قدم جمانے'' سے روکا جائے۔
پاکستانی بیان میں مکین کے حوالے سے، جو سینیٹ کی مسلح افواج کی قائمہ کمیٹی کے سربراہ ہیں، بتایا گیا ہے کہ اُنھوں نے دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں پاکستان کی کوششوں اور قربانیوں کو سراہا، اور دونوں ملکوں کے درمیان جاری رابطوں کی اہمیت کی نشاندہی کی۔
بعدازاں، امریکی وفد نے فوج کے سربراہ، جنرل قمر جاوید باجوہ سے راولپنڈی میں ملاقات کی، جہاں فوج کا صدر دفتر واقع ہے۔
اتوار کی رات گئے فوج کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں فریق نے سکیورٹی تعاون اور پاکستان اور افغانستان کے درمیان رابطے پر اتفاق کیا۔
امریکی وفد کے دیگر ارکان میں سینیٹر لِنڈسی گراہم، سینیٹر الزبیتھ وارن، سینیٹر ڈیوڈ پرڈیو اور سینیٹر شیلڈن وائٹ ہائوس شامل تھے۔
افغان طالبان کے ساتھ پاکستان کے مبینہ روابط اور اُن کےخوفناک اتحادی، حقانی نیٹ ورک ایک طویل مدت سے امریکہ کے ساتھ تنائو کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔
اِن الزامات سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں بھی کشیدگی رہی ہے، حالانکہ پاکستانی اہل کار اِن الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔