امریکہ کے وبائی امراض کے اعلیٰ ترین ماہر ڈاکٹر انتھونی فاؤچی نے کہا ہے کہ اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اندرون ملک ہوائی سفر کے لیے ویکسین لگوانا لازمی ہے۔
ڈاکٹر فاؤچی نے کہا کہ ویکسین لگوانے کو لازمی قرار دینے سے فضائی سفر کو بہتر تحفظ مل سکتا ہے، جب کہ دو سال اور اس سے زیادہ عمر کے افراد کے لیے چہرے کا ماسک پہننا پہلے ہی لازمی ہے۔
فاؤچی نے امریکی نیوز چینل 'ایم ایس این بی سی' سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب آپ اندرون ملک فضائی سفر کے لیے ویکسین لگوانے کو لازمی کر دیتے ہیں تو اس سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ویکسین لگوانے کی ترغیب ملے گی۔ میرا خیال ہے کہ اس تجویز پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔
تاہم بائیڈن انتظامیہ نے کہا ہے کہ اندرون ملک فضائی سفر کے لیے لازمی ویکسین لگوانے کا حکم جاری کرنے پر فی الحال غور نہیں کیا جا رہا اور نہ ہی صدر کے سائنسی مشیروں نے صدر کو اس بارے میں کوئی مشورہ دیا ہے۔
اس وقت صرف بین الاقوامی پروازوں کے ذریعے امریکہ آنے والے غیر ملکیوں کے لیے ضروری ہے کہ انہوں نے کرونا سے بچاؤ کی ویکسین کا کورس مکمل کر رکھا ہو۔
کرسمس پر لوگوں کا باہر نکلنا کرونا کے پھیلاؤ کا سبب بنا
امریکہ کی مختلف ریاستوں کے گورنروں کے ساتھ ورچوئل میٹنگ کے دوران صدر بائیڈن نے ان ریاستوں کے لیے امریکہ کی وفاقی حکومت کی جانب سے مکمل حمایت کا وعدہ کیا جہاں کرونا کا نیا ویرینٹ امکرون تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اس اضافے کی ایک وجہ کرسمس اور تعطیلات کے دوران لوگوں کا بڑی تعداد میں اپنے گھروں سے نکلنا اور ملاقاتیں کرنا ہے۔
وائرس کے تیزترین پھیلاؤ کے باعث حالیہ دنوں میں کئی علاقوں میں کرونا ٹیسٹنگ کے مراکز کے باہر لوگوں کی لمبی لمبی قطاریں نظر آئیں۔ صدر بائیڈن نے وائرس پر قابو پانے کی اپنی کوششوں کی مہم میں کہا ہے کہ ان کی انتظامیہ ملک بھر میں کرونا ٹیسٹنگ کے مراکز کی تعداد میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو اپنے گھروں پر ٹیسٹنگ کی سہولت کے لیے 50 کروڑ ٹیسٹنگ کٹس مفت فراہم کرے گی۔
اندرون ملک فضائی سفر پر ویکسین کی شرط میں کئی رکاوٹیں ہیں
اس سال کے شروع میں وائٹ ہاؤس نے اندرون ملک پروازوں میں سفر کے لیے ویکسین لگوانے کی ضرورت پر غور کیا تھا۔ تاہم، بعد میں اس خیال کو فوری قانونی چیلنجز کا سامنا کرنے کے اندیشے کے پیش نظر ترک کر دیا گیا تھا۔
گزشتہ ہفتے وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری جین ساکی نے 'ایم ایس این بی سی' چینل سے کہا تھا کہ چہرے کا ماسک فضائی سفر میں بہت مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ "ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اضافی پابندی لگانے سے پروازوں میں تاخیر ہو سکتی ہے اور اس کے دیگر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ہم اپنے صحت کے ماہرین پر بھروسہ کرتے ہیں اور فی الحال کسی اضافی اقدام کی ضرورت نہیں ہے۔
77 فی صد امریکی ویکسین لگوا چکے ہیں
امریکہ میں امراض پر کنٹرول اور روک تھام کے وفاقی مراکز سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول کے اعداد و شمار کے مطابق پانچ سال سے زیادہ عمر کے امریکیوں میں سے، جن کی تعداد 24 کروڑ سے زیادہ ہے اور وہ ویکسین لگوانے کے اہل ہیں، تقریباً 77 فی صد نے کرونا سے بچاؤ کی ویکسین کا کم ازکم ایک ٹیکہ لگوایا ہے۔
بائیڈن انتظامیہ زیادہ سے زیادہ امریکیوں کو ویکسین لگوانے کے لیے کئی منصوبوں پر عمل کر رہی ہے جن میں سے ایک وفاقی کارکنوں، وفاقی کانٹریکٹرز اور صحت کے شعبے سے وابستہ افراد کے لیے ویکسین لگوانے کی شرط بھی ہے، اس کے علاوہ 100 یا اس سے زیادہ ملازمین رکھنے والے اداروں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے کارکنوں کو ویکسین لگوائیں یا کرونا ٹیسٹنگ کے تقاضے پورے کریں۔
ویکسین لگوانے کے اس حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا چکا ہے جس کی سماعت 7 جنوری سے شروع ہو رہی ہے۔
قرنطینہ کی مدت میں نمایاں کمی کر دی گئی ہے
امریکی صحت کے حکام نے پیر کے روز امریکیوں کے لئے قرنطینہ کی مدت کو 10 سے گھٹا کر پانچ دن کر دیا ہے۔
بیماریوں کے کنٹرول اور روک تھام کے مراکز کے عہدیداروں نے کہا کہ قرنطینہ کی مدت میں کمی شواہد کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی ہے، کیونکہ علامات ظاہر ہونے سے دو روز پہلے اور تین دن بعد تک کا عرصہ وائرس کی منتقلی کے لحاظ سے اہم ہوتا ہے۔
قرنطینہ کی مدت میں کمی کا فیصلہ کرتے وقت امکرون ویرینٹ کی صورت حال کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے۔
ابتدائی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ امکرون اس سے پہلے کے ویرینٹس کے مقابلے میں کم مہلک ہے، لیکن یہ زیادہ تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ قرنطینہ کی زیادہ مدت کے باعث مریضوں کی دیکھ بھال کرنے والے عملے، ایئر لائنز اور دیگر کاروباروں کو فعال رکھنے میں دشواری پیش آ سکتی ہے۔
سی ڈی سی کی ڈائریکٹر روشیل والنسکی نے کہا کہ ملک میں امکرون کے بہت سے نئے کیسز سامنے آ رہے ہیں۔ لیکن وہ سب شدید نوعیت کے نہیں ہیں۔ ہم کوئی ایسا طریقہ کار اپنانا چاہتے ہیں کہ سائنسی تقاضوں پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے کی سرگرمیاں محفوظ انداز میں جاری رہ سکیں۔
اب سی ڈی سی بدلتے ہوئے حالات اور تقاضوں کے پیش نظر قرنطینہ کی مدت اور اس کی سختی میں کمی کر رہا ہے۔
امیریکن یونیورسٹی کے صحت عامہ قانون کے ایک ماہر لنڈسے ولی کا کہنا ہے کہ قرنطینہ سے متعلق سی ڈی سی کی نئی سفارشات ایک ایسے وقت میں لوگوں کو الجھن میں ڈال رہی ہیں جب وائرس کے پھیلاؤ میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
قرنطینہ کی بنیادی شرائط
ان سفارشات میں کہا گیا ہےکہ قرنطینہ ان لوگوں کے لیے جو وائرس سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ قرنطینہ کا اطلاق تمام افراد پر یکساں ہو گا، چاہے انہوں نے ویکسین کی مکمل خوراکیں حاصل کی ہیں، یا جزوی خوراک لی ہے یا انہیں بوسٹر بھی لگ چکا ہے۔
قرنطینہ کی مدت کرونا ٹیسٹ مثبت آنے کے ساتھ ہی شروع ہو جاتی ہے۔
قرنطینہ کی پانچویں دن کی مدت کے اختتام پر اگر متاثرہ شخص میں علامات نہیں ہیں تو وہ اپنی معمول کی سرگرمیوں کی طرف لوٹ سکتا ہے، لیکن چہرے کا ماسک پہننا ضروری ہو گا۔
قرنطینہ ان لوگوں کے لیے ہےجو کسی متاثرہ شخص سے رابطے میں آئے تھے لیکن خود وائرس سے متاثر نہیں تھے۔
نیویارک کے ایک معالج اور متعدی امراض کی سوسائٹی برائے امریکہ کے ترجمان ڈاکٹر ایرون گلیٹ کہتے ہیں کہ جب لوگ وائرس کے انفکشن میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو پانچ دن کے بعد وائرس کی منتقلی کا خطرہ کافی حد تک کم ہو جاتا ہے، لیکن کچھ لوگوں کے لیے خطرہ پھر بھی موجود رہتا ہے۔
سی ڈی سی کی ڈائریکٹر والنسکی کا کہنا ہے کہ اسی خطرے کے پیش نظر نئی ہدایات میں قرنطینہ کی مدت ختم ہونے کے بعد بھی چہرے کا ماسک پہننے کا مشورہ دیا گیا ہے۔
امریکی نیوی کے بحری جہازوں میں کرونا وائرس کے واقعات
امریکی وفاقی حکام کے مطابق امریکی بحریہ کے ایک جنگی جہاز کے 20 سے زیادہ ملاحوں کا کرونا ٹیسٹ پازیٹو آیا ہے۔ یہ عملے کی کل تعداد کا تقریباً 25 فی صد ہے۔ یہ جہاز پیر کے روز کیوبا میں واقع بحریہ کی مرکز گوانتاناموبے کی بندرگاہ سے روانہ ہوا تھا۔
بحری جہاز یو ایس ایس ملواکی کے عملے کی تعداد 100 سے کچھ زیادہ ہے۔ یہ نسبتاً ایک چھوٹا لڑاکا بحری جہاز ہے جسے اس سال کرونا وائرس کے حملے کا سامنا کرنا پڑا۔
اس سے قبل ایک اور جنگی بحری جہاز ہالسی کے سفر میں ہوائی سے سین ڈیاگو جاتے ہوئے تاخیر کا سامنا کرنا پڑا تھا کیونکہ اس کے عملے میں کئی افراد کرونا وائرس کی لپیٹ میں آ گئے تھے۔
بحریہ کے ایک اہل کار نے بتایا کہ ہالسی کا تقریباً ایک تہائی عملہ انفیکشن میں مبتلا ہوا، لیکن زیادہ تر فوجیوں میں وبا کی علامتیں ہلکی نوعیت کی تھیں اور کسی کو بھی اسپتال میں داخلے کی ضرورت نہیں پڑی۔ عملے کے تمام ارکان کو ویکسین کی مکمل خوراکیں لگ چکی تھیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ بحریہ کے 98 فی صد ارکان کو ویکسین لگ چکی ہے اور اس سے مرض کی شدت پر قابو پانے میں مدد مل رہی ہے۔ حکام کے مطابق بحری جہاز پر کسی میں بھی کرونا کے نئے ویرینٹ کی تصدیق نہیں ہوئی۔