امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغا ن مفاہمت زلمے خلیل زاد افغان تنازع کے حل کی کوششوں کی سلسلے میں ایک بار پھر پر کئی اہم ممالک کے دورے پر روانہ ہوگئے۔
امریکہ کے محکمہ خارجہ کی طرف سے جاری بیان کے مطابق خلیل زاد امریکہ کے ایک بین الادرتی وفد کے ہمراہ 10 سے 28 فروری کے دوران بلجیم، جرمنی، ترکی، قطر، افغانستان اور پاکستان کا دورہ کریں گے۔
محکمہ خارجہ نے کہا کہ یہ دورہ امن عمل کی کوششوں کا حصہ ہے جن میں امریکہ کی قومی سلامتی کے مفادات کا تحفظ اور تمام افغان فریقین کو مذاکرات کے لیے ایک میز پر لانا ہے تاکہ وہ اپنے ملک کے مستقبل کا تعین کر سکیں۔
بیان میں دورے سے متعلق مزید تفصیلات جاری نہیں کی گئیں۔
قطر میں طالبان کا سیاسی دفتر قائم ہے جہاں حال ہی میں خلیل زاد نے طالبان کے نمائندوں کے ساتھ افغان تنازع کے حل کے لیے بات چیت کی تھی۔ خلیل زاد خطے کے تازہ دورے میں ترکی اور پاکستان بھی جائیں گے۔ افغانستان تنازع کے حل اور طالبان کو کابل حکومت کے ساتھ براہ راست بات چیت پر آمادہ کرنے کےان دونوں ملکوں کا کردار اہم ہو سکتا ہے۔
قطر میں گزشتہ ماہ امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والی بات چیت میں کابل حکومت کا کوئی نمائندہ شریک نہیں تھا جس پر کابل حکومت ناخوش ہے۔
طالبان، کابل حکومت کو مغربی ممالک کی کٹھ پتلی حکومت قرار دیتے ہوئے اس سے بات چیت سے انکار کرتے ہیں۔
قطر میں ہونے والی حالیہ بات چیت کے دوران امریکہ اور طالبان نے امن سمجھوتے کی امید ظاہر کی ہے۔
واشنگٹن میں یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس میں 8 فروری کو بات کرتے ہوئے خلیل زاد نے کہا کہ افغانستان میں رواں سال جولائی میں ہونے والے صدارتی انتخابات سے پہلے کوئی سمجھوتہ طے پا سکتا ہے تاہم خلیل زاد نے خبردار کیا کہ کسی بھی حتمی سمجھوتے تک پہنچنے کے لئے ایک طویل راستہ طے کرنا ابھی باقی ہے۔
امریکی عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان میں تعینات 14 ہزار امریکی فوجیوں کی نصف تعداد کو واپس لانا چاہتے ہیں۔
صدر ٹرمپ پہلے ہی شام سے اپنے دوہزار فوجیوں کی واپسی کا یہ کہہ کر اعلان کر چکے ہیں کہ وہ مہنگی جنگوں میں امریکہ کی شرکت کو کم کرنا چاہتے ہیں۔