امریکی فوج کے ترجمان نے بتایا ہے کہ شام کے شہر دیر الزور میں امریکی فوج پر پیر کو ہونے والے راکٹ حملے کے جواب میں امریکی افواج نے بھرپور جوابی کارروائی کی ہے۔
داعش کے خلاف نبردآزما بین الاقوامی فوجی مداخلتی فورس کے ترجمان کرنل وائن مروتو نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں بتایا کہ متعدد راکٹ حملوں کے بعد شام میں تعینات امریکی افواج نے اپنے بچاؤ میں توپ خانے کی مدد سے اُن ٹھکانوں کو ہدف بنایا جہاں سے یہ راکٹ داغے جا رہے تھے۔
کرنل مروتو نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ امریکی افواج پر ہونے والے راکٹ حملے میں کوئی زخمی نہیں ہوا، البتہ اس حملے میں ہونے والے نقصان کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ راکٹ حملوں کا نشانہ دیر الزور میں واقع امریکہ کا فوجی اڈا تھا جسے گرین ولیج بھی کہا جاتا ہے۔
کرنل مروتو کے مطابق امریکی افواج نے راکٹ حملوں کا جواب بھاری توپ خانے کی گولہ باری سے دیا ہے۔
یاد رہے کہ امریکی فوجی بیس پر راکٹ حملوں کے بعد کئی گھنٹے تک دوطرفہ کارروائی جاری رہی تھی۔
امریکی فوج کے مطابق اس نے شام اور عراق کی سرحد کے قریب ایران کی حمایت یافتہ میلیشیاؤں کے تین ٹھکانوں کے خلاف فضائی کارروائی کی ہے، جہاں سے امریکی فوجی اہلکاروں اور تنصیبات پر ڈرون حملے کیے جاتے تھے۔
دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن نے پیر کو اوول آفس میں کہا کہ انہوں نے گزشتہ شب عراق میں امریکی فوجی اہلکاروں کے خلاف کیے گئے حالیہ حملوں کے ذمہ دار ایرانی پشت پناہی والے ملیشیا گروہوں کے زیرِ استعمال ٹھکانوں کے خلاف فضائی کارروائی کی ہدایت کی تھی۔
پینٹاگون کے پریس سیکریٹری جان کربی کے مطابق امریکہ نے کتائب حزب اللہ اور کتائب سید الشہدا جیسی ملیشیاؤں کے زیر استعمال اسلحے کے ذخیروں اور تنصیبات کے خلاف فضائی کارروائی کی۔ ان میں سے دو اہداف شام میں جب کہ ایک عراق کے اندر واقع تھا۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی نے پیر کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ''ہمارے فوجیوں کے خلاف حملے فوری طور پر بند ہونے چاہئیں۔ یہی وجہ ہے کہ افواج کے تحفظ کی خاطر صدر بائیڈن نے فوجی کارروائی کی اجازت دی۔"
قاہرہ میں 15 جون کو وائس آف امریکہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں امریکی سینٹرل کمان کے سربراہ جنرل فرینک مکنزی نے بتایا تھا کہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران عراق میں تعینات امریکی فوج پر تین بار ڈرون حملے کیے گئے۔ تاہم ان حملوں میں کوئی ہلاک و زخمی نہیں ہوا۔
مکنزی کے مطابق ''عراق میں بہت سارے ڈرونز موجود ہیں۔ ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ ان میں سے کچھ دیسی ساختہ ہیں اور کچھ ایران سے آتے ہیں۔''
پینٹاگون کی خاتون ترجمان اور بحریہ کی کمانڈر جیسیکا مک نلٹی نے پیر کے روز بتایا کہ ایران کی حمایت یافتہ میلیشیاؤں نے اپریل سے عراق میں امریکی اور اتحادی افواج کے اہلکاروں کو نشانہ بناتے ہوئے بغیر پائلٹ کی کم از کم پانچ فضائی گاڑیاں (ان مینڈ ایئریل وہیکل) روانہ کیں۔ اس کے علاوہ راکٹ بھی داغے جاتے رہے جن کا ہدف بھی امریکی اور اتحادی افواج تھیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ ایران کے ساتھ تنازع کا خواہاں نہیں۔ لیکن ان کے بقول ''ہم خطے میں موجود اپنی افواج کے دفاع کا حق رکھتے ہیں اور حملوں کا جواب دینے کی استعداد رکھتے ہیں۔''
دریں اثنا عراقی وزیرِ اعظم مصطفیٰ الخادمی نے پیر کے روز عراقی سرزمین پر امریکی فضائی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہماری قومی اقتدار اعلیٰ اور بین الاقوامی قوائد کی خلاف ورزی ہے۔
عراق کی فوج نے بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ ''اپنے حساب چکانے کے لیے ہماری سرزمین استعمال نہ کی جائے۔''