اوباما انتظامیہ نے ریاست شمالی کیرولائنا کے نام نہاد ’باتھ روم بل‘ کے خلاف یہ کہتے ہوئے مقدمہ دائر کیا ہے کہ یہ انسدادِ امتیاز کے وفاقی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
اس قانون کے تحت جنس تبدیل کرنے والے افراد کے لیے لازم ہو گا کہ وہ ان غسل خانوں کو استعمال کریں جو ان کی پیدائش کے وقت ان کی جنسی شناخت سے مطابقت رکھتے ہیں نا کہ اس جنس کے مطابق جس کے تحت وہ اب اپنی شناخت کرواتے ہیں۔
امریکہ کی اٹارنی جنرل لوریتا لنچ نے پیر کو شمالی کیرولائنا کے قانون کو "ریاست کی طرف سے امتیازی سلوک" قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ انہیں وہ وقت یاد دلاتا ہے جب سیاہ فاموں کو عوامی سہولتوں سے محروم رکھا جاتا تھا اور یہ اختیار ریاست کے پاس تھا کہ کون شادی کر سکتا ہے۔
وفاقی حکومت نے ریاست کے رہپبلکن گورنر پیٹ میکوری، محکمہ عوامی تحفظ اور لاکھوں ڈالر وفاقی فنڈ حاصل کرنے والی شمالی کیرولائنا کی یونیورسٹی کو اس مقدمے میں فریق بنایا ہے۔
لنچ نے کہا کہ "یہ اس وقار اور احترام سے متعلق ہے جو ہم اپنے شہریوں سے روا رکھتے ہیں۔" انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ قانون خواجہ سرا افراد کے لیے "جذباتی دکھ، ذہنی اذیت، تکلیف، شرمندگی اور توہین آمیز رویوں" کا باعث بنا ہے۔
قبل ازیں شمالی کیرولائنا نے اس قانون کو برقرار رکھنے کے لیے وفاقی حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کر رکھا ہے۔
میکوری نے کہا کہ واشنگٹن "جابرانہ انداز اختیار کررہا ہے، جنسی شناخت کی تعریف کرنے کی کوشش کررہا ہے اور جنسی شناخت کی نا تو شناخت واضح ہے اور ناہی اس کی تعریف۔"
میکوری اور اس اقدام کے دیگر حامیوں کا موقف ہے کہ یہ عوامی غسل خانوں میں عوام کی پرائیوسی کے لیے ضروری ہے اور یہ ان مردوں کے خلاف تحفظ فراہم کرتا ہے جو خواتین کے غسل خانوں کو استعمال کر کے ان کی جاسوسی کرسکتے ہیں اور ان کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
لنچ کا کہنا ہے کہ ریاست نے ایک ایسا مسئلہ کھڑا کر دیا ہے جو سرے سے موجود ہی نہیں تھا جس کی بنا پر لوگوں کے خلاف امتیازی سلوک اور انہیں ہراساں کرنے کے لئے ایک عذر کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔
شمالی کیرولائنا کو ممکنہ طور پر وفاقی فنڈز کے کھونے کے ساتھ ساتھ ٹیکس کی مد میں لاکھوں ڈالر کا بھی نقصان اٹھانا پڑے گا کیونکہ کئی کمپنیاں اس ریاست میں کاروبار کے منصوبوں کو منسوخ کر رہی ہیں۔