امریکہ نے کہا ہے کہ نیٹو کو رسد فراہم کرنے والے قافلوں پر پابندی کے پاکستانی فیصلے کے بعد متبادل راستوں سے افغانستان میں تعینات افواج کے لیے سامان بھیجنے پر اخراجات میں چھ گنا اضافہ ہوگیا ہے۔
امریکی وزارت دفاع پینٹاگون کےاعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے خبررساں ایجنسی’اے پی‘ نے کہا ہے کہ نسبتاَ طویل شمالی راستے سے رسد کی ترسیل پر ماہانہ 104 ملین یعنی دس کروڑ چالیس لاکھ ڈالرخرچ ہو رہے ہیں جب کہ پاکستان کے راستے سامان بھیجنے پر اخراجات کا ماہانہ تخمینہ صرف 17 ملین (ایک کروڑ ستر لاکھ) ڈالرتھا۔
حکومت پاکستان نے 26 نومبر کو سرحدی چوکیوں پر امریکی فضائی حملے میں 24 فوجیوں کی ہلاکت کے ردعمل میں نیٹو اور امریکی افواج کے لیے رسد کے قافلوں پراپنی راہداری بند کردی تھی اور اس کی بحالی پارلیمان کی منظوری سے مشروط کر رکھی ہے۔
امریکی حکام پہلے ہی یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ افغانستان میں تعینات اتحادی افواج کے لیے رسد بھیجنے کے متبادل راستے نا صرف طویل بلکہ مہنگے ہیں لیکن اس پر اٹھنے والے اخراجات کا تخمینہ پہلی مرتبہ سامنے آیا ہے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ جب تک پارلیمان نیٹو اور امریکہ کے ساتھ انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں تعاون کے مستقبل کی شرائط کی منظوری نہیں دیتی اُس وقت تک اس کی سرزمین سے رسد کے قافلوں کو گزرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
مزید برآں پاکستانی حکام یہ عندیہ بھی دے چکے ہیں کہ ماضی کے برعکس مستقبل میں ایسے قافلوں پر بھاری محصولات کی وصولی کو بھی یقینی بنایا جائے گا کیونکہ افغانستان میں فوجی سامان اور ایندھن لے جانے والے ٹرکوں کی تسلسل سے آمدورفت نے اُس کی شاہراہوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے جن کی مرمت کے لیے اُسے اربوں روپے درکار ہیں۔
جمعہ کو لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ پارلیمان کا ایک مشترکہ اجلاس جلد بلایا جائے گا جس میں قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کی امریکہ اور نیٹو سے مستقبل کے تعلقات کے بارے میں تیار کی گئی سفارشات کو حتمی منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔
’’جو پارلیمنٹ فیصلہ کرے گی ہم اس کے پابند ہوں گے اور ہم کسی دوسرے ملک کے پابند نہیں ہیں۔‘‘
وزیراعظم گیلانی نے قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کو پاک امریکہ تعلقات پر نظر ثانی کر کے مستقبل میں دوطرفہ تعاون کے تعین کے لیے سفارشات مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی اور کمیٹی نے اپنا کام مکمل کرنے کے بعد رپورٹ حکومت کو بجھوا دی ہے۔
جمعہ کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ اس رپورٹ پر بحث کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ کا مشترکہ اجلاس فروی کے پہلے ہفتے میں بلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔