پاکستان نے کہا ہے کہ افغانستان میں تعینات غیر ملکی افواج کے لیے رسد کی راہداری کو بحال کرنے کا ’’فی الحال‘‘ کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔
وزارت خارجہ میں جمعرات کو ہفتہ وار نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ترجمان عبدالباسط نے کہا کہ یہ معاملہ امریکہ اور نیٹو کے ساتھ پاکستان کے مستقبل میں تعاون کی شرائط پر نظرِثانی کے عمل سے مشروط ہے۔
’’ایسی کوئی پیش رفت میرے علم میں نہیں آئی ہے اور میرے خیال میں اس حوالے سے شائع ہونے والی اطلاعات محض قیاس آرائیاں ہیں۔‘‘
خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ نے جمعرات کو ذرائع کے حوالے سے خبر دی تھی کہ پاکستان کی جانب سے رسد پر بھاری محصولات عائد کرکے اس کی ترسیل بحال کیے جانے کا امکان ہے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالباسط کا کہنا تھا کہ پارلیمان سے منظوری کے بعد جن شرائط پر امریکہ اور پاکستان کا تعاون بحال ہو گا اس کے دونوں ملکوں کے تعلقات پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
اُنھوں نے پاکستان اور افغانستان کے لیے خصوصی امریکی ایلچی مارک گراسمین کو اسلام آباد آنے سے روکنے کے حکومتی فیصلے کا بھی دفاع کیا۔
’’پاکستان چاہتا ہے کہ تعلقات پر نظر ثانی کا پارلیمانی عمل مکمل ہونے کے بعد ہی امریکی ایلچی گراسمن اسلام آباد کا دورہ کریں تاکہ بات چیت مفید اور سودمند ثابت ہو۔‘‘
ترجمان نے ایک بار پھر کہا کہ اُن کا ملک امریکہ کے ساتھ باہمی احترام کی بنیاد پر دوطرفہ تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے اور اس کے لیے بنیادی نکات پر اتفاق رائے نا گزیر ہے۔
اُن کے بقول امریکی وزیر خارجہ ہلری کلٹن اور اُن کی پاکستانی ہم منصب حنا ربانی کھر کے درمیان ٹیلی فون پر حالیہ بات چیت کی تفصیلات کو امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا۔
اخبار نے دعویٰ کیا تھا کہ امریکی وزیر خارجہ نے پاکستانی ہم منصب سے گفتگو میں اوباما انتظامیہ کا موقف دہراتے ہوئے کہا کہ اُن کا ملک دنیا کے کسی بھی حصے میں ایسے شخص کے خلاف کارروائی کرے گا جس سے امریکہ کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو۔
امریکی اخبار کے مطابق اس سخت بیان کے جواب میں حنا ربانی کھر کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنی حدود کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرے گا اور اگر کوئی امریکی جہاز آیا تو اس کو مار گرایا جائے گا۔