امریکی انٹر ٹینمینٹ کمپنی پر ہونے والے سائبر حملے کی تحقیق کرنے والے عہدیداروں کے قریبی ذرائع نے کہا ہے کہ تفتیش کاروں کا خیال ہے کہ شمالی کوریا نے گزشتہ ماہ سونی پکچرز کے خلاف کیے جانے والے سائیر حملے کے لیے ملک کے باہر سے ہیکروں کی مدد حاصل کی تھی۔
خبر رساں ادارے رائیڑز نے ایک عہدیدار، جو اس معاملے پر بات کرنے کا مجاز نہیں ہے، کے حوالے سے بتایا ہے کہ شمالی کوریا کے پاس اس طرح کی جدید مہم کے لیے مہارت موجود نہیں ہے اس لیے امریکی تحقیق کار اس امکان پر غور کر رہے ہیں کہ پیانگ یانگ نے اس کام کے لیے ملک کے باہر سے خدمات حاصل کی ہوں گی۔
سونی پکچرز کے خلاف امریکہ میں ہونے والا سائبر حملہ امریکی سرزمین پر کسی کمپنی کے خلاف ہونے والا اب تک تباہ کن حملہ ہے کیونکہ ہیکروں نے نہ صرف بڑے پیمانے پر اس کی معلومات چرا لی تھیں بلکہ انہوں نے ہارڈ ڈرائیوز کو صاف کر دیا تھا اور اسٹوڈیو کے نیٹ ورک کو ایک ہفتہ سے زیادہ تک معطل رکھا۔
ایک طرف امریکی عہدیدار اس بات کی تحقیق کر رہے ہیں کہ آیا شمالی کوریا نے ملک کے باہر سے کنٹریکٹروں کی خدمات حاصل کی تھیں یا نہیں جبکہ ایف بی آئی اپنے پہلے بیان پر ہی قائم ہے کہ سونی کمپنی کے خلاف ہونے والے حملے کا ذمہ دار پیانگ یانگ ہے۔
ایف بی آئی کا خبر رساں ادارے رائیڑز کو دیے گئے ایک بیان میں کہنا ہے کہ " اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ شمالی کوریا کی حکومت سونی پکچرز اینٹرٹینمینٹ کے نیٹ ورک کی تباہی اور معلومات کی چوری کی ذمہ دار ہے"۔
ایف بی آئی نے کہا کہ " کوئی معتبر معلومات موجود نہیں ہیں جو یہ ظاہر کرے کہ کوئی دوسرا فرد اس سائبر واقعے کا ذمہ دار ہے"۔
شمالی کوریا اس بات سے انکاری ہے کہ سونی پر ہونے والے حملے کے پیچھے اس کا ہاتھ ہے اور وہ یہ کہہ چکا ہے کہ وہ امریکہ کے طرف سے کسی بھی ردعمل میں جوابی کارروائی کرے گا۔
جن افراد نے سونی پکچزز پر ہیکنگ حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے انہوں نے اپنے انٹرنیٹ پیغام میں کہا کہ وہ فلم "دی انٹرویو" پر برہم تھے جو سونی پکچرز کی طرف سے شمالی کوریا کے رہنما کم جانگ ان کے فرضی قتل پر بنائی گئی ایک مزاحیہ فلم ہے۔