رسائی کے لنکس

امریکہ اور تائیوان کی دفاعی کمپنیاں ہتھیاروں کی مشترکہ پیداوارپر بات چیت کریں گی


فائل فوٹو: تائیوان کی صدر تسائی انگ وین سالانہ دفاعی فورم میں 6 مئی 2019 کو شرکت کر رہی ہیں
فائل فوٹو: تائیوان کی صدر تسائی انگ وین سالانہ دفاعی فورم میں 6 مئی 2019 کو شرکت کر رہی ہیں

امریکہ اور تائیوان کے دفاعی کنٹریکٹرز اگلے ماہ بالمشافہ بات چیت دوبارہ شروع کریں گے جس میں مشترکہ طور پر ہتھیاروں کی تیاری کے امکانات پر تبادلہ خیال کیا جا ئے گا۔ یہ ایک ایسا اقدام ہوگا جس پر چین کی جانب سے اعتراض آئے گا۔

جنوری 2020 میں کرونا وبا کے دوران رک جانےوالی یہ میٹنگ پہلے ایک باقاعدہ تقریب ہوا کرتی تھی۔ اب یہ ملاقات عالمی تناظر میں ایسے وقت میں ہورہی ہے جب یوکرین میں بحران جاری ہے اور آبنائے تائیوان میں کشیدگی بڑھ رہی ہے۔

امریکہ اور تائیوان کی کاروبار سہولت کار تنظیم" یو ایس تائیوان بزنس کونسل" کے مطابق "تائیوان-یو ایس ڈیفنس انڈسٹری فورم" کا اجلاس 3 مئی کو تائی پے میں ہوگا۔ اس اجلاس میں مشترکہ پیداوار، تائیوان کی صنعتی صلاحیتوں کو مربوط کرنےاور دفاعی تعاون کے کئی مسائل پر توجہ دی جائے گی۔

بزنس کونسل کے صدر روپرٹ ہیمنڈ چیمبرز نے وائس آف امریکہ کی مینڈیرن سروس کو ایک ٹیلی فون انٹرویو میں بتایا کہ ایجنڈے کے موضوعات میں ہتھیاروں کی خریداری کے بعد کی ترسیل اور مستقبل کے ہتھیاروں کی تحقیق اور ترقی شامل ہیں۔

اس اجلاس میں تقریباً 25 دفاعی کنٹریکڑز اپنے نمائندے بھیجے گے۔

چیمبرز نے اشاعت "نکی ایشیا" کو بتایا کہ تائیوان ہوائی، سطحی اور زیر سمندر ڈرون کے ساتھ ساتھ گولہ بارود کی مشترکہ پیداوار میں دلچسپی رکھتا ہے۔

ڈرون ٹیکنالوجی میں مہارت رکھنے والے کئی امریکی دفاعی ٹھیکیدار تائیوان کے دورے میں شرکت کریں گے۔

واشنگٹن میں چینی سفارت خانے نے وی او اے مینڈارن کی جانب سے تبصرہ کرنے کی درخواست کا ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا۔

حکومتی منظوری

خیال رہے کہ امریکی دفاعی مینوفیکچررز کو غیر ملکی شراکت داروں کے ساتھ مشترکہ طور پر ہتھیار تیار کرنے کے لیے عام طور پر حکومت کی منظوری کی ضرورت ہوتی ہے۔

23 مارچ کو اپ ڈیٹ کی گئی "کانگریشنل ریسرچ سروس" کی رپورٹ کے مطابق، امریکی کمپنیوں کے لیے لازم ہے کہ وہ نیٹو ممالک، آسٹریلیا، جاپان یا سویڈن کے ساتھ شراکت داری کی اجازت کے لیے " گلوبل کمپری ہینسو ایکسپورٹ اتھارٹی" کو اس سلسلسے میں درخواست دیں۔ تاہم، اس پروگرام میں تائیوان کا ذکر نہیں ہے۔

امریکی حکومت ایسی اجازت دینے کے تناظر میں محتاط رویہ اپناتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو اپنی مجموعی پالیسی کو دیکھنے اور سوالات پوچھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جن پہلووں کا خیال رکھا جاتا ہے ان میں یہ نقطے شامل ہیں کہ کیا پروڈکٹ امریکہ کی حکمت عملی کے مطابق ہے، ٹیکنالوجی کتنی جدید ہے، اور اگر یہ پرانی ٹیکنالوجی کے مقابلے میں نئی ہے تو غیر ملکی ذرائع کو نئی ٹیک جاری کرنے کے بارے میں حساسیت زیادہ ہوتی ہے۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ تائیوان نے امریکی ٹیکنالوجی کو محفوظ رکھنے کے ضمن میں اعتماد پیدا کیا ہے۔

ادھر چین کی حکومت سے وابستہ "گلوبل ٹائمز "نے اخبار نکی ایشیا کی خبر کے بعد 12 اپریل کو ایک اداریے میں کہا تھا کہ اگر امریکہ تائیوان میں ہتھیاروں کی پیداوارکرتا ہے، تو یہ پہلے سے کشیدہ امریکہ چین تعلقات میں تناؤ کو مزید بڑھا دے گا۔

اداریئے کے مطابق "یہ (اقدام) تائیوان کو اسلحہ بیچنے سے بھی بدتر ہو گا۔"

اداریے کے مطابق مزید یہ کہ "ضروری پابندیوں کے علاوہ، پیپلز لبریشن آرمی اس قسم کی تنصیبات کو نشانہ بنائے گی۔ یہ ہمارے میزائلوں کا ایک اور ہدف ہو گا۔"

"کیٹو انسٹی ٹیوٹ" تھنک ٹینک سے تعلق رکھنے والے ماہر ایرک گومز نے کہا کہ اگر امریکہ تائیوان کے ساتھ مشترکہ پیداوار کے ساتھ آگے بڑھنے کا انتخاب کرتا ہے تو اسے کم پروفائل رکھنے کی ضرورت ہے۔

ان کے بقول اگر کانگریس اور وائٹ ہاؤس کسی ممکنہ معاہدے کے بارے میں بہت زیادہ آواز اٹھاتے ہیں تو چین کی جانب سے بڑے پیمانے پر جواب دینے کا امکان زیادہ ہوگا۔ لہذا وہ کہتے ہیں کہ اس کام کو خاموشی سے کرنا بہتر ہوگا۔

XS
SM
MD
LG