قطر میں 11 روز سے طویل دورانیہ کے مذاکرات کے بعد، امریکہ اور طالبان نے جمعے کے روز ایک روز کا وقفہ کیا۔ بات چیت کا مقصد 18 برس سے جاری افغان لڑائی کے خاتمے کے لیے معاہدہ طے کرنا ہے۔
تاہم، ایک اعلیٰ امریکی دفاعی اہلکار نے ’’چند رکاوٹوں‘‘ کا ذکر کیا جن کا مذاکرات کار حل تلاش کر رہے ہیں۔
مذاکرات کا تازہ ترین دور قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہو رہا ہے، جو 25 فروری سے جاری ہے۔
مذاکرات میں وقفے کا باضابطہ اعلان کرتے ہوئے، طالبان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مکالمے کا عمل ہفتے کو دوبارہ شروع ہوگا۔
امریکی اور سرکش اہل کاروں نے کہا ہے کہ حالیہ دنوں ہونے والی بات چیت ’’ایک مثبت سمت کی جانب آگے بڑھ رہی ہے‘‘، لیکن ایجنڈا کے بارے میں اختلافی بیانات جاری کیے گئے ہیں۔
امریکی نمائندہٴ خصوصی برائے افغان امن، زلمے خلیل زاد امریکی وفد کی سربراہی کر رہے ہیں۔
طالبان ترجمان، ذبیح اللہ مجاہد نے جمعے کے روز ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکی مذاکرات کاروں کے ساتھ ’’مربوط بات چیت’’ میں اُس کے نمائندوں نے اس یقین دہانی کے بدلے کہ ملک کو دہشت گردی کا مرکز نہیں بننے دیا جائے گا، افغانستان سے ’’تمام (غیر ملکی) قابض افواج‘‘ کے انخلا پر توجہ مرکوز کیے رکھی۔
اس ہفتے کے اوائل میں واشنگٹن میں ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، محکمہٴ خارجہ کے ترجمان، رابررٹ پلاڈینو نے کہا کہ دوحہ میں جاری ملاقاتوں میں طالبان کی ممکنہ جنگ بندی اور بین الافغان مذاکرات کے لیے گروپ کی جانب سے رابطے پر بھی بات ہو رہی ہے۔