امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ افغانستان میں پاکستان کے بہت سے مفادات ہیں جن میں سے بعض امریکی مفادات سے مطابقت نہیں رکھتے۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان کے معاملے پر امریکہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کا جائزہ لے گا اور دیکھے گا افغانستان کے حوالے سے واشنگٹن کی پالیسی کیا ہو گی اور وہ پاکستان سے کیا توقع رکھتا ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ نے پاکستان پر یہ بھی زور دیا کہ وہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے میں عجلت کا مظاہرہ نہ کرے۔
امریکی وزیرِ خارجہ نے ان خیالات کا اظہار پیر کو امریکی ایوانِ نمائندگان کی اُمور خارجہ کمیٹی کے اجلاس میں ہونے والی ایک سماعت کے دوران کیا۔
بلنکن کے اس بیان پر تاحال پاکستان کی جانب سے باضابطہ ردِعمل سامنے نہیں آیا البتہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایک جانب امریکہ افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار کو سراہتا رہا ہے جب کہ دوسری جانب وہ پاکستان کے افغانستان میں مبینہ کردار پر بھی شکوک و شہبات کا اظہار کرتا رہا ہے اور یہ بیان اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
افغان امور کے ماہر اور مصنف احمد رشید کا کہنا ہے کہ پاکستان نے طالبان اور امریکہ کا امن معاہدے کرانے میں معاونت کے علاوہ بھی افغانستان میں امریکہ کے ساتھ تعاون کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان پر شک کیا جا رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے احمد رشید کا کہنا تھا کہ امریکہ سمجھتا ہے کہ طالبان نے بین الاقوامی برادری کے تحفظات دُور کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔ لہذٰا امریکہ چاہے گا کہ پاکستان طالبان پر اثر انداز ہو اور اُنہیں عالمی برادری کے ساتھ کیے گئے وعدے پورے کرنے پر مجبور کرے۔
احمد رشید نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کی افغانستان پالیسی پاکستان کی سول حکومت نے تشکیل نہیں دی، بقول ان کے اس میں پاکستان کے عسکری اداروں کا بڑا عمل دخل رہا ہے۔ لہذٰا اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ پاکستان طالبان سے کیا اُمیدیں رکھتا ہے اور طالبان پاکستان کی بات مانتے ہیں یا نہیں۔
اُن کے بقول جب تک پاکستان کی افغان پالیسی میں شفافیت نہیں آئے گی اس وقت تک شکوک و شبہات کی فضا برقرار رہے گی۔
امریکی ایوانِ نمائندگان کی خارجہ اُمور کمیٹی میں سماعت کے دوران ایوان کے مختلف اراکین کی طرف سے افغانستان میں پاکستان کے کردار پر سخت تنقید بھی کی گئی۔
پاکستان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ افغانستان میں اس کا کوئی پسندیدہ فریق نہیں ہے اور وہ افغانستان میں جامع حکومت کے قیام کا حامی ہے۔
'معلوم تھا کہ امریکہ سارا ملبہ پاکستان پر ڈالے گا'
قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات سے منسلک پروفیسر ڈاکٹر ظفر جسپال کا کہنا ہے کہ یہ بات شروع ہی سے معلوم تھی کہ امریکہ انخلا کے بعد افغانستان میں اپنی مبینہ ناکامی کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھیرائے گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ظفر جسپال نے کہا کہ امریکہ کو یہ ادراک ہونا چاہیے کہ افغانستان میں امریکہ کی پالیسی کامیاب نہیں رہی۔ لہذٰا دیگر ممالک پر اپنے مقاصد کے حصول کے لیے دباؤ ڈالنا مناسب نہیں ہے۔
ظفر جسپال کا کہنا تھا کہ عملی طور پر تمام ممالک طالبان سے رابطے رکھے ہوئے ہیں اور عملی طور پر یہ انہیں تسلیم کرنے کے ہی مترادف ہے۔ لیکن پاکستان سفارتی طور پر اس وقت تک طالبان کو تسلیم نہیں کرے گا جب تک عالمی برداری انہیں تسلیم نہیں کرتی۔
'عالمی برادری طالبان کی عبوری حکومت پر معترض ہے'
احمد رشید کا کہنا ہے کہ طالبان کی عبوری حکومت ان کے بقول بین الاقوامی برادری کی نظر میں ایک جامع حکومت نہیں ہے۔ اس میں زیادہ تر پشتون طالبان شامل ہیں اور ان میں متعدد کے نام اقوامِ متحدہ کی تعزیرات کی فہرست میں موجود ہیں۔ اسی لیے طالبان پر تنقید ہو رہی ہے کیوں کہ ان میں دیگر افغان نسلی اور سیاسی حلقوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔
لیکن احمد رشید کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان کا طالبان پر اثر و رسوخ تھا تو پاکستان طالبان کابینہ کے ناموں پر اعتراض اُٹھا کر طالبان کو یہ باور کرا سکتا تھا کہ یہ حکومت دنیا تسلیم نہیں کرے گی۔ کیوں کہ اس سے نہ صرف طالبان کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا بلکہ پاکستان کے لیے بھی سفارتی مشکلات بڑھیں گی۔
اُن کا کہنا تھا کہ امریکہ کا پاکستان پر طالبان حکومت کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کے معاملے پر دباؤ ڈالنا مناسب نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ پاکستان کا اپنا فیصلہ ہو گا کہ وہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کرتا ہے یا نہیں۔
ظفر جسپال کے بقول امریکہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کا طالبان پر اثر و رسوخ ہے۔ لیکن اُن کے مطابق یہ محدود ہے۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ نے امریکی وزیرِ خارجہ کے بیان پر تاحال وائس آف امریکہ کی درخواست کے باوجود ابھی تک کسی ردِعمل کا اظہار نہیں کیا۔
لیکن پاکستان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ طالبان اب حقیقت ہیں اور بین الاقوامی برداری کو ان سے رابطے قائم رکھنے چاہئیں۔ پاکستان کے اعلیٰ حکام یہ کہتے رہے ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو افغانستان کے تناظر سے ہٹ کر دیکھنے کی بھی ضرورت ہے۔