امریکی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہدایت پر واشنگٹن، بھارت اور ترکی کی ترجیحی تجارتی ممالک کی حییثت کو ختم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
امریکہ کے تجارت سے متعلق دفتر کے نمائندے نے ایک بیان میں کہا ہے کہ واشنگٹن جرنلائزڈ سسٹم آف پریفرینسز (جی پی ایس) یعنی عمومی ترجیحات کے نظام، کے تحت بھارت اور ترکی کو دی گئی ترجیحی تجارتی حیثیت کو ختم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے کیونکہ وہ اس حیثیت کے لیے ضروری معیار پر پورے نہیں اترتے۔ "
بیان کے مطابق بھارت یہ یقین دہانی کرانے میں ناکام رہا ہے کہ وہ امریکہ کو اپنی مارکیٹ تک درکار رسائی دے گا جب کہ ترکی اب کافی حد تک اقتصادی طور پر ایک ترقی یافتہ ملک ہے۔
امریکہ کے 'جی ایس پی' پروگرام کے تحت بعض ممالک سے متعدد مصنوعات بغیر کسی محصولات کے امریکی منڈیوں میں آ سکتی ہیں اگر یہ ممالک اس کے درکار طریقہ کار پر عمل کرتے ہیں جن میں امریکہ کو اپنی مارکیٹ تک مناسب اور مساوی رسائی دینا بھی شامل ہے۔
امریکی نمائندے کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ بھارت نے" کئی تجارتی رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں جن کی وجہ سے امریکہ کی تجارت پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔ "
دوسری طرف بیان کے مطابق 1975ء میں ترکی نے 'جی ایس پی' کے تحت تجارت میں ترجیحی حیثیت ملنے کے بعد سے نمایاں اقتصادی ترقی کی ہے اور ترکی نے اس پروگرام سے مطلوبہ استفادہ کر لیا ہے۔
دریں اثنا ترکی کی وزیر تجارت رخسار پیکن نے کہا ہے کہ امریکہ کے طرف سے ترکی کی ترجیحی تجارتی شراکت دار کی حیثت کو ختم کرنے کا مجوزہ فیصلہ ان کے بقول نیٹو کے دو اتحادی ملکوں کے درمیان دو طرفہ تجارت کو فروغ کرنے دینے کی کوششوں کے برعکس ہے۔
پیکن نے منگل کو ٹوئٹر پرکہا " یہ ٖفیصلہ باہمی تجارت کو 75 ارب ڈالر تک بڑھانے کے ہمارے مشترکہ مقصد کے خلاف ہے۔ یہ فیصلہ امریکہ کی چھوٹی صنعتوں اور انٹر پرائزز پر منفی طور پر اثر انداز ہو گا۔ "
ترکی کی وزیر تجارت نے مزید کہا کہ "ہم پھر بھی امریکہ کے ساتھ باہمی تجارت کو بڑھانے کی کوشش کرتے رہیں گے جو ہمارا اسٹریٹجک شراکت دار ہے۔"
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق صدر ٹرمپ متعدد بار امریکی کے تجارتی خسارے کو کم کرنے کے عزم کا اعادہ کر چکے ہیں اور متعدد بار بھارت پر امریکی مصنوعات پر محصولات کی بلند شرح کو کم کرنے پر زور دے چکے ہیں۔ امریکی عہدیداروں کا کہنا ہے کانگرس اور بھارت کی حکومت کو آگاہ کرنے کے بعد بھارت کو دی گئی تجارتی ترجیحات کو ختم کرنے کے لیے کم ازکم 60 روز درکار ہیں۔
ٹرمپ نے کانگرس کو ایک خط میں آگاہ کیا ہے "میں یہ اقدام اس لیے کر رہا ہوں کہ امریکہ اور بھارت کے درمیان ہونے والی بات چیت کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ بھارت نے امریکہ کو یہ یقین دہانی نہیں کروائی ہے کہ وہ اپنی مارکیٹ تک منصفانہ اور مناسب رسائی دے گا۔ "
دوسری طرف بھارتی حکومت کے ایک عہدیدار نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا ہے کہ امریکی حکومت سے بات چیت جاری ہے اور عہدیدار کے بقول یہ معاملہ بغیر کسی دقت کے سلجھا لیا جائے گا۔
بھارتی عہدیدار کا کہنا ہے امریکہ کی طرف سے بھارت کو ترجیحی تجارت کی سہولت سے سالانہ 19 کروڑ ڈالر کا منافع حاصل ہوتا ہے۔
امریکہ کی طرف سے بھارت کو ترجیحی تجارت کی سہولت کے بعد بھارت ہر سال 5 ارب 60 کروڑ ڈالر کی مصنوعات بغیر محصولات امریکہ کو برآمد کرتا ہے۔