امریکہ نے جمعرات کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر افغانستان کے لئے تقریباً 14 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کی امداد دینے کا اعلان کیا، جہاں فوری امداد نہ پہنچنے کی صورت میں اس موسم سرما کے دوران لاکھوں لوگ خوراک کی شدید کمی کی زد میں آ سکتے ہیں۔
ایک بیان میں قومی سلامتی کونسل کی خاتون ترجمان، ایملی ہورن نے کہا ہے کہ یہ امریکی امداد ایک کروڑ 84 لاکھ سے زائد متاثرہ افغانوں میں براہ راست تقسیم کی جائے گی، اس کام میں آزادانہ طور پر کام کرنے والی تنظیموں کی مدد حاصل کی جائے گی۔ ان متاثرہ افراد میں ہمسایہ ملکوں میں موجود افغان مہاجرین بھی شامل ہیں۔
ہورن نے کہا کہ ''ہمارے ساتھی جان بچانے میں مدد دینے کے کام میں درکار عارضی پناہ گاہیں، روزگار کے وسائل کی فراہمی، صحت کی دیکھ بھال، سرد موسم سے تحفظ، خوراک کی ہنگامی امداد، پانی، صحت و صفائی اور ساتھ ہی فوری ضرورت کی اشیا، خشک سالی، غذائیت کی کمی اور شدید سرد موسمی حالات سے محفوظ رکھنے کی کوششوں میں مدد دے رہے ہیں''۔
انھوں نے اس جانب توجہ مبذول کرائی کہ اس اضافی امداد کے بعد، سال 2021ء کے دوران امریکہ کی جانب سے افغانستان میں انسانی بنیادوں کی نوعیت کی امداد اور افغان مہاجرین کی مدد کے لیے اب تک مجموعی طور پر تقریباً 47 کروڑ 40 لاکھ ڈالر دیے جا چکے ہیں، جو کسی ملک کی جانب سے دی جانے والی سب سے بڑی امداد ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ چار عشروں سے زیادہ عرصے کے مہلک تنازعات اور قدرتی آفات کے نتیجے میں افغانستان کو طویل مدت سے غذائی اجناس کے بحران کا سامنا ہے۔
اقوام متحدہ کی تنظیموں نے اس ہفتے کے اوائل میں خبردار کیا تھا کہ بنیادی انسانی ضروریات کی شدید قلت مزید بڑھتی جا رہی ہے اور تنازع کے شکار ملک کی اندازاً چار کروڑ آبادی کا نصف، یعنی دو کروڑ 28 لاکھ افغان باشندوں کو نومبر سے خوراک کی شدید کمی درپیش ہو گی۔
انھوں نے بتایا کہ مجموعی طور پر اس سال کے آخر تک پانچ سال سے کم عمر کے 30 لاکھ 20 ہزار بچوں کو غذائیت کی شدید کمی کا سامنا ہو گا۔
20 سالہ لڑائی میں ملوث رہنے کے بعد اگست میں امریکی اور مغربی افواج کا انخلا ہوا، جس کے بعد طالبان نے افغان حکومت پر قبضہ کر لیا۔
شدت پسند طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد انسانی حقوق اور دہشت گردی کے معاملوں پر تشویش کے باعث امریکہ اور دیگر ملکوں نے کابل کے خلاف مالی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
ان پابندیوں کے نتیجے میں امریکی فیڈرل ریزور میں جمع تقریباً 10 ارب ڈالر کے افغان اثاثوں کو منجمد کر دیا گیا ہے اور ان تک طالبان کی رسائی روک دی گئی ہے، جس کے نتیجے میں افغانستان کے معاشی طور پر مفلوج ہونے کے خدشات درپیش ہیں۔