رسائی کے لنکس

امریکہ میانمار سے روہنگیا برادری سے بہتر سلوک کا مطالبہ کرے گا


ترجمان محکمہ خارجہ نے کہا کہ واشنگٹن اقوامِ متحدہ کو حفاظتی مراکز قائم کرنے میں مدد دینے اور کچھ پناہ گزینوں کو اپنے ملک میں آباد کرنے کی درخواستوں پر غور کرے گا۔

ایک سینئیر امریکی سفارتکار میانمار روانہ ہو رہے ہیں، جہاں وہ ملک کی روہنگیا اقلیت سے بہتر سلوک کا مطالبہ کریں گے۔ اس سے ایک دن قبل واشنگٹن نے اشارہ دیا تھا کہ وہ اس نسلی گروہ سے تعلق رکھنے والے سمندر میں پھنسے ہزاروں افراد کو پناہ فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔

امریکہ کے نائب وزیرِ خارجہ اینٹونی بلنکن نے کہا کہ وہ جمعرات کو میانمار کے رہنماؤں سے ’’رخائن ریاست میں حالات بہتر کرنے کی حکومتی ذمہ داریوں پر بات کریں گے تاکہ وہاں کے لوگ یہ نہ محسوس کریں کہ ان کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ وہ ملک چھوڑ جائیں اور سمندر میں اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈالیں۔‘‘

گزشتہ دس دنوں کے دوران بنگلہ دیش اور میانمار سے 3,000 تارکین وطن اور پناہ گزینوں کو جن کی اکثریت روہنگیا افراد پر مشتمل ہے، جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کے ساحلوں سے بچایا گیا یا انہوں نے تیر کر اپنی جان بچائی۔ انسانی سمگلروں نے انہیں سمندر میں بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا تھا۔ خیال ہے کہ ہزاروں اب بھی کم ہوتی ہوئی اشیائے خورونوش کے ساتھ سمندر میں ادھر اُدھر بھٹک رہے ہیں۔

ابتدا میں مدد سے انکار کے بعد انڈونیشیا اور ملائشیا نے بدھ کو 7,000 کے لگ بھگ افراد کو انسانی بنیادوں پر امداد اور عارضی پناہ دینے پر رضامندی اس شرط پر ظاہر کی تھی کہ انہیں ایک سال کے اندر اندر بین الاقوامی برادری کی مدد سے کہیں اور آباد کیا جائے گا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر شائع کی گئی ایک اطلاع کے مطابق ملائیشیا کے وزیرِ اعظم نجیب رزاق نے ’رائل ملائشین نیوی‘ اور ’میری ٹائم انفورسمنٹ ایجنسی‘ کو بھی حکم دیا کہ وہ ’’روہنگیا کشتیوں کی تلاش اور بچاؤ کی کوششیں کریں۔‘‘ اس حکمنامے میں زور دیا گیا تھا کہ ’’ہمیں جانوں کا نقصان روکنا ہے۔‘‘

ملائیشیا کے وزیرِ خارجہ عنیفاہ آہمان اور انڈونیشیا کے وزیرِ خارجہ رتنو مرسوڈی جمعرات کو میانمار کے دارالحکومت نیپیداو میں حکام سے بات کریں گے۔ اس سلسلے میں ایک علاقائی سربراہ اجلاس اگلے جمعے منعقد کیا جائے گا۔

امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان میری یارف کے مطابق امریکہ ان ممالک کے ’’بین الاقوامی قانون کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے‘‘ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ واشنگٹن اقوامِ متحدہ کو حفاظتی مراکز قائم کرنے میں مدد دینے اور کچھ پناہ گزینوں کو اپنے ملک میں آباد کرنے کی درخواستوں پر غور کرے گا۔

تارکین وطن کا بحران اس ماہ اس وقت شدت اختیار کر گیا جب تھائی لینڈ نے روہنگیاؤں کو نشانہ بنانے والے انسانی سمگلنگ کے نیٹ ورکس کو توڑا، جس کے بعد انسانی سمگلر ہزاروں افراد کو سمندر میں بھٹکتا چھوڑ کر فرار ہو گئے۔

ابتدا میں پناہ گزینوں کی کشتیوں کو واپس سمندر میں دھکیلنے پر ملائیشیا، انڈونیشیا اور تھائی لینڈ کی حکومتوں کی شدید مذمت کی گئی۔ ان ممالک کو ڈر تھا کہ اگر انہوں نے ان لوگوں کو اترنے دیا تو ان کے ساحل غربت زدہ پناہ گزینوں سے بھر جائیں گے۔

میانمار کو بھی اس بحران میں اس کے کردار پر بین الاقوامی مذمت کا سامنا کرنا پڑا۔ بدھ مت اکثریتی ملک میانمار مسلمان روہنگیا آبادی کو شہریت اور کئی بنیادی انسانی حقوق دینے سے انکار کرتا ہے۔

بغیر ملک کے اس گروہ کی حالت اس وقت مزید خراب ہو گئی جب 2013 میں میانمار میں مذہبی فساد پھوٹ پڑا جس میں 200 روہنگیا ہلاک ہو گئے۔ اس کے بعد سے ہزاروں روہنگیا افراد مغربی رخائن ریاست میں تنگ اور غلیظ جیل نما کیمپوں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔

میانمار، جسے برما بھی کہا جاتا ہے، اس گروہ سے تعلق رکھنے والوں کو روہنگیا کہنے سے احتراز کرتا ہے۔ اس کی بجائے وہ انہیں ’’بنگالی‘‘ کہتا ہے اور انہیں بنگلہ دیش سے آنے والے غیر قانونی تارکین وطن کے طور پر دیکھتا ہے۔

اقوامِ متحدہ نے میانمار سے بارہا مطالبہ کیا ہے کہ وہ روہنگیا آبادی کو شہریت اور مکمل حقوق دے۔

XS
SM
MD
LG