داعش کے دہشت گرد گروپ کے خلاف لڑائی میں رابطے کے کام میں مدد دینے کے لیے امریکہ کی جانب سے کمانڈوز کو شمالی شام روانہ کرنےکا فیصلہ اوباما انتظامیہ اور مغرب کی پیش پناہی والے اہم سیاسی مخالفین کے ساتھ ساتھ سنی عرب باغیوں کے تعلقات میں تنائو کا باعث بن گیا ہے، جن کی اولیت شامی صدر بشار الاسد کو ہٹانا ہے۔
'فری سیریئن آرمی' کے باغی کمانڈروں نے کہا ہے کہ شمالی شام کے اندر امریکی فوج کو بھیجنے کے فیصلے کے بارے میں اُنھیں بروقت اطلاع نہیں دی گئی۔
اُنھیں اس منصوبے کے بارے میں نامہ نگاروں کی رپورٹوں سے پتا چلا جب وائٹ ہائوس نے اسپیشل فورسز کا ایک چھوٹا دستہ، 50 سے کم، تعینات کرنے اعلان کیا، تاکہ باغیوں کی مدد کرنے والے کُرد لڑاکوں اور امریکی قیادت والا اتحاد شام میں دولت اسلامیہ کے خلاف لڑائی میں رابطے کے کام میں بہتری لاسکے۔
'وائس آف امریکہ' کو ایک اِی میل میں، 'فری سیرئن آرمی (ایف ایس اے)' کے چوٹی کے ایک کمانڈر، جنرل سلیم ادریس نے تسلیم کیا ہے کہ 'امریکہ کی جانب سے فوجی شام بھیجنے کے بارے میں مجھے زیادہ پتا نہیں ہے'۔
تعیناتی کے بارے میں اندھیرے میں رکھے جانے پر، 'ایف ایس اے' کے باغی کمانڈروں نے شکایت کی ہے کہ امریکہ کرُد پیپلز پروٹیکشن یونٹس (وائی پی جی) اور شمالی شام سے کارفرما ناراض عرب اور ترک ملیشیائوں کی استعداد بڑھانے میں پُرعزم لگتا ہے، جب کہ دریائے فرات کے مغرب کی ساری باغی فورسز کو نظرانداز کیا گیا ہے۔
جب سے روس نے زیادہ تر اسد مخالف باغیوں کے خلاف فضائی کارروائی کا آغاز کیا ہے، تب سے امریکہ اور دیگر ملکوں نے جنھیں 'فرینڈس آف سیریا' کہا جاتا ہے، 'ایف ایس اے' کو اسلحے کی رسد بڑھا دی ہے۔
اِن ہتھیاروں میں ٹینک شکن 'ٹو میزائل' شامل ہیں۔ تاہم، 'ایف ایس اے' نے شکایت کی ہے کہ روس کی حمایت یافتہ اسد کی زمینی کارروائی میں استعمال ہونے والے اسلحے کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ رسد ناکافی ہے؛ اور وہ کاندھے سے فائر کیے جانے والی طیارہ شکن میزائل کی رسد فراہم کرنے سے انکاری ہے، جنھیں 'نان پیڈس' کہا جاتا ہے۔