واشنگٹن —
امریکہ اور اقوامِ متحدہ نے مصر میں سابق حکمران جماعت 'اخوان المسلمون' کے سیکڑوں حامیوں کو ایک عدالت کی جانب سے سزائے موت سنانے کے فیصلے پر "گہری تشویش" ظاہر کی ہے۔
پیر کو 'وہائٹ ہاؤس' سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ مصری عدالت کا حالیہ فیصلہ گزشتہ ماہ سامنے آنے والے اسی نوعیت کے فیصلے کی طرح بین الاقوامی انصاف کے بنیادی ضابطوں کے خلاف ہے۔
خیال رہے کہ مصر کے دارالحکومت قاہرہ سے 200 کلومیٹر جنوب میں واقع شہر منیہا کی ایک عدالت نے پیر کو ایک پولیس افسر کے قتل کا جرم ثابت ہونے پر پیر کو اخوان المسلمون کے سربراہ محمد بدیع اور ان کی جماعت کے 683 حامیوں کو موت کی سزا سنائی تھی۔
حکام کے مطابق تشدد کے جس واقعے میں ملزمان کو سزا سنائی گئی ہے وہ گزشتہ سال اگست میں اس وقت ہوئے تھے جب اخوان سے تعلق رکھنے والے مصر کے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کے خلاف فوجی بغاوت کے خلاف احتجاجی تحریک عروج پر تھی۔
منیہا کی اسی عدالت نے گزشتہ ماہ بھی اسی طرح کے ایک مقدمے میں صرف دو روز کی سماعت کے بعد اخوان کے 529 کارکنوں کو سزائے موت دینے کا حکم دیا تھا جس پر انسانی حقوق کی مختلف بین الاقوامی تنظیموں نے کڑی تنقید کی تھی۔
خیال رہے کہ 'اخوان المسلمون' کا شمار مصر کی سب سے منظم اور بڑی سیاسی جماعتوں میں ہوتا ہے جسے مصر کی عبوری حکومت نے کالعدم قرار دے دیا ہے۔
گزشتہ سال جولائی میں صدر مرسی کے خلاف ہونے والی فوجی بغاوت کے بعد سے اخوان المسلمون کے خلاف مصر بھر میں سخت کریک ڈاؤن جاری ہے جس کے دوران تنظیم کی اعلیٰ قیادت اور ہزاروں کارکنوں کو حراست میں لیا جاچکا ہے۔
معزول صدر محمد مرسی بھی عبوری حکومت کی تحویل میں ہیں اور ان پر مقامی عدالتوں میں غداری ، دشمن کے ساتھ ساز باز، قتل، اقدامِ قتل اور مظاہرین کو تشدد پر اکسانے جیسے الزامات کے تحت مقدمات چلائے جارہے ہیں۔
پیر کو سامنے آنے والے عدالتی فیصلے پر 'وہائٹ ہاؤس' کی جانب سے جاری کیے جانے والے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ مصری حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کے تمام شہریوں کو شفاف قانونی کاروائی کے ذریعے انصاف تک آزادانہ رسائی فراہم کرے جس کے دوران انہیں اپنے دفاع کا پورا موقع اور وکیل تک رسائی کا حق حاصل ہو۔
بیان میں مصری حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اس نوعیت کے اجتماعی مقدمات ختم اور ان مقدمات میں اب تک سنائی جانے والی سزائیں معطل کرے اور ملزمان کے خلاف مروج ضابطوں کے تحت قانونی کارروائی کی جائے۔
امریکی حکام نے مصری عدالت کے فیصلے پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالتی کارروائی میں بین الاقوامی قانون اور انصاف کے انتہائی بنیادی اصولوں سے بھی روگردانی کی گئی ہے۔
دریں اثنا اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے بھی مصری عدالت کی جانب سے اخوان المسلمون کے سیکڑوں حامیوں کو سزائے موت سنائے جانے پر تشویش ظاہر کی ہے۔
اپنے ایک بیان میں عالمی ادارے کے سربراہ نے خبردار کیا ہے کہ قانونی ضابطوں کے پاسداری کیے بغیر چلائے جانے والے مقدمات میں انتہائی سزائیں سنانے کے واقعات سے مصر کا استحکام داؤ پر لگ سکتا ہے۔
دوسری طرف اخوان المسلمون نے عدالتی فیصلے کے ردِ عمل میں کہا ہے کہ اس نوعیت کے فیصلوں سے تنظیم اور اس کے حامیوں کی مصر میں فوجی اقتدار کےخلاف جاری پرامن جدوجہد پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
پیر کو 'وہائٹ ہاؤس' سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ مصری عدالت کا حالیہ فیصلہ گزشتہ ماہ سامنے آنے والے اسی نوعیت کے فیصلے کی طرح بین الاقوامی انصاف کے بنیادی ضابطوں کے خلاف ہے۔
خیال رہے کہ مصر کے دارالحکومت قاہرہ سے 200 کلومیٹر جنوب میں واقع شہر منیہا کی ایک عدالت نے پیر کو ایک پولیس افسر کے قتل کا جرم ثابت ہونے پر پیر کو اخوان المسلمون کے سربراہ محمد بدیع اور ان کی جماعت کے 683 حامیوں کو موت کی سزا سنائی تھی۔
حکام کے مطابق تشدد کے جس واقعے میں ملزمان کو سزا سنائی گئی ہے وہ گزشتہ سال اگست میں اس وقت ہوئے تھے جب اخوان سے تعلق رکھنے والے مصر کے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کے خلاف فوجی بغاوت کے خلاف احتجاجی تحریک عروج پر تھی۔
منیہا کی اسی عدالت نے گزشتہ ماہ بھی اسی طرح کے ایک مقدمے میں صرف دو روز کی سماعت کے بعد اخوان کے 529 کارکنوں کو سزائے موت دینے کا حکم دیا تھا جس پر انسانی حقوق کی مختلف بین الاقوامی تنظیموں نے کڑی تنقید کی تھی۔
خیال رہے کہ 'اخوان المسلمون' کا شمار مصر کی سب سے منظم اور بڑی سیاسی جماعتوں میں ہوتا ہے جسے مصر کی عبوری حکومت نے کالعدم قرار دے دیا ہے۔
گزشتہ سال جولائی میں صدر مرسی کے خلاف ہونے والی فوجی بغاوت کے بعد سے اخوان المسلمون کے خلاف مصر بھر میں سخت کریک ڈاؤن جاری ہے جس کے دوران تنظیم کی اعلیٰ قیادت اور ہزاروں کارکنوں کو حراست میں لیا جاچکا ہے۔
معزول صدر محمد مرسی بھی عبوری حکومت کی تحویل میں ہیں اور ان پر مقامی عدالتوں میں غداری ، دشمن کے ساتھ ساز باز، قتل، اقدامِ قتل اور مظاہرین کو تشدد پر اکسانے جیسے الزامات کے تحت مقدمات چلائے جارہے ہیں۔
پیر کو سامنے آنے والے عدالتی فیصلے پر 'وہائٹ ہاؤس' کی جانب سے جاری کیے جانے والے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ مصری حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کے تمام شہریوں کو شفاف قانونی کاروائی کے ذریعے انصاف تک آزادانہ رسائی فراہم کرے جس کے دوران انہیں اپنے دفاع کا پورا موقع اور وکیل تک رسائی کا حق حاصل ہو۔
بیان میں مصری حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اس نوعیت کے اجتماعی مقدمات ختم اور ان مقدمات میں اب تک سنائی جانے والی سزائیں معطل کرے اور ملزمان کے خلاف مروج ضابطوں کے تحت قانونی کارروائی کی جائے۔
امریکی حکام نے مصری عدالت کے فیصلے پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالتی کارروائی میں بین الاقوامی قانون اور انصاف کے انتہائی بنیادی اصولوں سے بھی روگردانی کی گئی ہے۔
دریں اثنا اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے بھی مصری عدالت کی جانب سے اخوان المسلمون کے سیکڑوں حامیوں کو سزائے موت سنائے جانے پر تشویش ظاہر کی ہے۔
اپنے ایک بیان میں عالمی ادارے کے سربراہ نے خبردار کیا ہے کہ قانونی ضابطوں کے پاسداری کیے بغیر چلائے جانے والے مقدمات میں انتہائی سزائیں سنانے کے واقعات سے مصر کا استحکام داؤ پر لگ سکتا ہے۔
دوسری طرف اخوان المسلمون نے عدالتی فیصلے کے ردِ عمل میں کہا ہے کہ اس نوعیت کے فیصلوں سے تنظیم اور اس کے حامیوں کی مصر میں فوجی اقتدار کےخلاف جاری پرامن جدوجہد پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔