رسائی کے لنکس

امریکہ کا ایران میں صحافی کے مقدمے میں شفافیت کا مطالبہ


جیسن رضایان (فائل فوٹو)
جیسن رضایان (فائل فوٹو)

علی رضایان نے وائس آف امریکہ کی فارسی سروس کو بتایا کہ ان کے بھائی کی وکیل منگل کو تہران میں عدالتی کارروائی کے دوران موجود تھیں، مگر ان کی والدہ اور بھابی کو کورٹ میں نہیں آنے دیا گیا۔

امریکہ نے ایران سے ’واشنگٹن پوسٹ‘ اخبار کے ایک صحافی جیسن رضایان کے بارے میں مزید معلومات کا مطالبہ کیا ہے۔ اس صحافی پر جاسوسی کا مقدمہ منگل کو تہران میں شروع ہوا۔

امریکی محکمہ خارجہ، انسانی حقوق کے کارکنوں اور رضایان کے اہلِ خانہ نے اس کیس میں ایران کی جانب سے شفافیت کے فقدان پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

رضایان کے بھائی علی نے کہا کہ گرفتاری کے بعد سے اہل خانہ کا ان سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔

علی رضایان نے وائس آف امریکہ کی فارسی سروس کو بتایا کہ ان کے بھائی کی وکیل منگل کو تہران میں عدالتی کارروائی کے دوران موجود تھیں، مگر ان کی والدہ اور بھابی کو کورٹ میں نہیں آنے دیا گیا۔

’’وہ وہاں جیسن کو دیکھنے کی اُمید میں بیٹھی تھیں مگر انہیں اندر نہیں جانے دیا گیا۔ وہ اسے نہیں دیکھ سکیں۔ وہ وہاں پانچ چھ گھنٹے رہیں۔‘‘

ایرانی حکام نے رضایان کو گزشتہ سال جولائی میں حراست میں لیا تھا۔ ان کے پاس ایران اور امریکہ کی دہری شہریت ہے مگر ایران اپنے شہریوں کی دوسرے ملکوں کی شہریت کو تسلیم نہیں کرتا۔

رضایان کو ان کی اہلیہ جو خود بھی صحافی ہیں، اور ایک تیسرے شخص کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا۔

ایک سرکاری خبر رساں ادارے نے کہا کہ رضایان اور دو دوسرے افراد کو ’’بند کمرے میں مقدمے کی سماعت‘‘ کے لیے لایا گیا۔ ان دو افراد کے نام ظاہر نہیں کیے گئے۔

ایران کی ’مہر نیوز ایجنسی‘ نے کہا کہ رضایان پر جاسوسی، ملک کے خلاف پراپیگنڈا اور دشمن طاقتوں کے ساتھ سازباز کے الزامات لگائے گئے ہیں۔

اس نے مزید کہا کہ رضایان نے عدالت میں منگل کو کچھ الزامات کو مسترد کیا اور کہا کہ صحافی کے طور پر اس کی سرگرمیاں قانونی تھیں۔

’مہر‘ نے یہ بھی کہا کہ عدالت نے رضایان کی جانب سے براک اوباما کے صدر بننے سے قبل ان کی اقتدار کی منتقلی کی ٹیم کو 2008ء میں لکھا گیا ایک خط بھی پڑھ کر سنایا۔ خط میں انہوں نے دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری میں مدد کی پیشکش کی تھی۔

علی رضایان نے کہا کہ ان کے بھائی اپنا مؤقف بیان کرنے کے لیے بے تاب ہیں۔

’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘ کے جیسن سٹرن نے کہا کہ ایرانی حکومت منصفانہ مقدمہ کی سماعت کے اپنے عہد کو پورا نہیں کر رہی۔

سٹرن نے کہا کہ 2009ء سے اب تک ایران صحافیوں کو حراست میں لینے والے ملکوں میں سرِ فہرست ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ایران میں 30 کے قریب صحافی زیرِ حراست ہیں۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان جیف ریتھکے نے کہا کہ امریکی حکومت بھی رضایان کے مقدمے کی سماعت کو عوام کے لیے کھولنے کا مطالبہ کر رہی ہے مگر ساتھ ہی اس کا موقف ہے کہ یہ مقدمہ چلایا ہی نہیں جانا چاہیئے تھا۔

انہوں نے کہا کہ ’’ہم ان مضحکہ خیز الزامات کو ختم کرنے اور رضایان کی رہائی کا مطالبہ کرتے رہیں گے۔‘‘

XS
SM
MD
LG