امریکہ نے ایک بار پھر کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کشمیر کے معاملے سمیت اپنے معاملات مل بیٹھ کر حل کریں۔
واشنگٹن میں محکمہ خارجہ کے ترجمان جان کربی نے جمعہ کو معمول کی نیوز بریفنگ کے دوران پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ کشمیر کے معاملے پر امریکہ کا موقف تبدیل نہیں ہوا اور وہ چاہتا ہے کہ یہ باہمی طور پر حل کریں۔
"ہم چاہتے ہیں کہ موجودہ کشیدگی ختم ہو اور مذاکرات ہوں، دونوں ملکوں کے باہمی معاملات کے حل کے لیے بامعنی مذاکرات ہوں۔"
کشمیر شروع ہی سے دونوں ہمسایہ ایٹمی قوتوں کے درمیان تنازع اور کشیدگی کی ایک بڑی وجہ چلا آ رہا ہے جس کا ایک حصہ پاکستان اور ایک بھارت کے زیر انتظام ہے۔
لیکن اس کشیدگی میں گزشتہ ماہ بھارتی کشمیر میں فوج کے ایک ہیڈ کوارٹر پر مشتبہ دہشت گردوں کے حملے کے بعد آئی جس کا الزام بھارت، پاکستان میں موجود کالعدم شدت پسند تنظیم پر عائد کرتا ہے لیکن پاکستان اس بارے میں شواہد کا تقاضا کرتے ہوئے اس دعوے کو مسترد کر چکا ہے۔
حالیہ دنوں میں کشمیر کو تقسیم کرنے والی عارضی حد بندی (لائن آف کنٹرول) پر دونوں ملکوں کے فوجیوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ بھی ہو چکا ہے جس میں دو پاکستانی فوجی مارے جا چکے ہیں۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان جان کربی کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں میں اختلاف رائے موجود ہے لیکن اسے مل جل کر ہی دور کیا جا سکتا ہے۔
"جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ یہ اپنے اختلافات دور کرنے کے لیے کام کریں۔ ہمارے بھی کئی ملکوں کے ساتھ اختلافات ہیں اور ہم بھی ممکنہ حد تک بہترین طریقے سے انھیں دور کرنے کے کوشش کرتے ہیں۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ "ہم پاکستان اور بھارت کے راہنماؤں سے یہی کہہ رہے ہیں اور یہی توقع کرتے ہیں کہ وہ بھی ایسا ہی کریں۔"
ادھر امریکی محکمہ دفاع نے پہلی مرتبہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے دونوں ملکوں کی فوجوں پر زور دیا ہے کہ وہ تناؤ میں کمی کے لیے بات چیت جاری رکھیں۔
پینٹاگان کے ترجمان پیٹر کک نے ایک بریفنگ میں کہا کہ "ہمیں معلوم ہے کہ بھارت اور پاکستان کی فوجیں ایک دوسرے سے رابطے میں رہی ہیں اور ہم اس کی حوصلہ افزائی کریں گے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت جاری رہے تاکہ کشیدگی کو کم کیا جا سکے۔"
ان کا کہنا تھا کہ امریکی حکومت بشمول پیٹاگان اور مختلف ادارے دونوں ملکوں کے ساتھ معمول کے رابطے جاری رکھے ہوئے ہیں۔