واشنگٹن —
امریکہ کے نائب صدر اور آئندہ صدارتی انتخاب میں اسی عہدے کے لیے ڈیموکریٹک امیدوار جو بائیڈن اور ان کے ری پبلکن حریف اور رکنِ کانگریس پال ریان کے درمیان جمعرات کو ہونے والے انتخابی مباحثے میں ملکی معیشت اور مشرق وسطیٰ سے متعلق پالیسی اہم موضوع رہے۔
چار نومبر کے صدارتی انتخاب میں نائب صدارت کے ان دونوں امیدواروں کے درمیان انتخابی مہم کے دوران ہونے والا یہ واحد مباحثہ تھا جس کا انعقاد ریاست کنٹکی میں کیا گیا اور اسے ٹی وی پر براہِ راست نشر کیا گیا۔
پال ریان نے اوباما انتظامیہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایک ایسے وقت جب امریکہ کی بیرون ملک مشکلات بڑھ رہی ہیں لیکن ملک میں نوکریوں میں کوئی اضافہ نہیں ہو رہا ہے۔
امریکہ کے اقتصادی مسائل کا ذکر کرتے ہوئے جو بائیڈن نے کہا کہ کانگریس میں ریپبلکنز ’’ان کے راستے سے ہٹ جائیں‘‘ اور صدر اوباما کو معشیت کو درست کرنے دیں۔ انھوں نے ملک میں اقتصادی تنزلی کا الزام رپبلکنز پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے منتخب صدر کے دور میں دو جنگیں شروع کی گئیں۔
پال ریان نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اوباما انتظامیہ کا کہنا تھا کہ امریکی معیشت کی شرح نمو چار فیصد تک ہو جائے گی لیکن اس کے برعکس اقتصادی ترقی کی شرح محض 1.3 فیصد رہی۔
امریکہ کی خارجہ پالیسی پر بائیڈن اور ریان نے ایک دوسرے کے موقف کی مخالفت کی۔ جو بائیڈن نے شام کے حوالے سے اوباما انتظامیہ کا اپنے اتحادیوں کے ہمراہ محتاط رویے کو سراہا۔
ریان کا کہنا تھا کہ شام کے صدر بشار الاسد پر عہدہ چھوڑنے کے لیے عالمی دباؤ کو ایک سال ہو گیا ہے لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہوا۔ انھوں نے کہا کہ اوباما انتظامیہ کے پاس زیادہ بہتر منصوبہ ہونا چاہیے تھا۔
امریکہ کی اس ریاست میں روایت پسند 'ٹی پارٹی ' کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے جو سیاسی طور پر خاصے سرگرم ہیں۔ گو کہ دونوں امیدواروں کے درمیان مباحثے میں زیادہ تر امریکہ کی خارجہ پالیسی پر توجہ مرکوز رہی ، لیکن 'ٹی پارٹی' سے منسلک ووٹرز کی دلچسپی کا محور کچھ اور مسائل بھی ہیں۔
یہ لوگ امریکہ کے داخلی مسائل اور ان کے حل کے لیے بنائی جانے والی پالیسیوں کے متعلق زیادہ پریشان ہیں اور ملازمتوں کے نئے مواقع کی فراہمی، وفاقی حکومت کے اخراجات اور حجم میں کمی جیسے مسائل پر بات کرنا اور سننا چاہتے ہیں۔
ریاست کنٹکی روایتی طور پر 'سرخ ریاست' رہی ہے جس کا مطلب ہے کہ یہاں کے لوگوں کا سیاسی رجحان بیشتر اوقات ری پبلکن جماعت کی طرف رہا ہے اور وہ مختلف سیاسی عہدوں پر ری پبلکن امیدواران کو منتخب کرتے آئے ہیں۔
'ٹی پارٹی' چوں کہ قدامت پسندوں کی ڈھیلی ڈھالی تنظیم ہے، لہذا اقدار اور تحفظات کی یکسانیت کے باعث اس سے وابستہ افراد کاجھکاؤ بھی ری پبلکن جماعت ہی کی طرف ہے۔
لیکن ریاست کے ڈیموکریٹ ووٹر 'ٹی پارٹی' کی اس مقبولیت اور عروج سے خائف ہیں کیوں کہ ان کے خیال میں اس طرح کے انتہا پسند گروپوں کی موجودگی میں معتدل اور صحت مند مکالمے کا امکان معدوم ہوجاتا ہے۔
تجزیہ کاروں کو یقین ہے کہ نومبر کے انتخابات میں ری پبلکن صدارتی امیدوار مٹ رومنی کنٹکی کا میدان مارلیں گے اور ان کی اس کامیابی میں 'ٹی پارٹی' کے ووٹر بنیادی کردار اد ا کریں گے۔
چار نومبر کے صدارتی انتخاب میں نائب صدارت کے ان دونوں امیدواروں کے درمیان انتخابی مہم کے دوران ہونے والا یہ واحد مباحثہ تھا جس کا انعقاد ریاست کنٹکی میں کیا گیا اور اسے ٹی وی پر براہِ راست نشر کیا گیا۔
پال ریان نے اوباما انتظامیہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایک ایسے وقت جب امریکہ کی بیرون ملک مشکلات بڑھ رہی ہیں لیکن ملک میں نوکریوں میں کوئی اضافہ نہیں ہو رہا ہے۔
امریکہ کے اقتصادی مسائل کا ذکر کرتے ہوئے جو بائیڈن نے کہا کہ کانگریس میں ریپبلکنز ’’ان کے راستے سے ہٹ جائیں‘‘ اور صدر اوباما کو معشیت کو درست کرنے دیں۔ انھوں نے ملک میں اقتصادی تنزلی کا الزام رپبلکنز پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے منتخب صدر کے دور میں دو جنگیں شروع کی گئیں۔
پال ریان نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اوباما انتظامیہ کا کہنا تھا کہ امریکی معیشت کی شرح نمو چار فیصد تک ہو جائے گی لیکن اس کے برعکس اقتصادی ترقی کی شرح محض 1.3 فیصد رہی۔
امریکہ کی خارجہ پالیسی پر بائیڈن اور ریان نے ایک دوسرے کے موقف کی مخالفت کی۔ جو بائیڈن نے شام کے حوالے سے اوباما انتظامیہ کا اپنے اتحادیوں کے ہمراہ محتاط رویے کو سراہا۔
ریان کا کہنا تھا کہ شام کے صدر بشار الاسد پر عہدہ چھوڑنے کے لیے عالمی دباؤ کو ایک سال ہو گیا ہے لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہوا۔ انھوں نے کہا کہ اوباما انتظامیہ کے پاس زیادہ بہتر منصوبہ ہونا چاہیے تھا۔
امریکہ کی اس ریاست میں روایت پسند 'ٹی پارٹی ' کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے جو سیاسی طور پر خاصے سرگرم ہیں۔ گو کہ دونوں امیدواروں کے درمیان مباحثے میں زیادہ تر امریکہ کی خارجہ پالیسی پر توجہ مرکوز رہی ، لیکن 'ٹی پارٹی' سے منسلک ووٹرز کی دلچسپی کا محور کچھ اور مسائل بھی ہیں۔
یہ لوگ امریکہ کے داخلی مسائل اور ان کے حل کے لیے بنائی جانے والی پالیسیوں کے متعلق زیادہ پریشان ہیں اور ملازمتوں کے نئے مواقع کی فراہمی، وفاقی حکومت کے اخراجات اور حجم میں کمی جیسے مسائل پر بات کرنا اور سننا چاہتے ہیں۔
ریاست کنٹکی روایتی طور پر 'سرخ ریاست' رہی ہے جس کا مطلب ہے کہ یہاں کے لوگوں کا سیاسی رجحان بیشتر اوقات ری پبلکن جماعت کی طرف رہا ہے اور وہ مختلف سیاسی عہدوں پر ری پبلکن امیدواران کو منتخب کرتے آئے ہیں۔
'ٹی پارٹی' چوں کہ قدامت پسندوں کی ڈھیلی ڈھالی تنظیم ہے، لہذا اقدار اور تحفظات کی یکسانیت کے باعث اس سے وابستہ افراد کاجھکاؤ بھی ری پبلکن جماعت ہی کی طرف ہے۔
لیکن ریاست کے ڈیموکریٹ ووٹر 'ٹی پارٹی' کی اس مقبولیت اور عروج سے خائف ہیں کیوں کہ ان کے خیال میں اس طرح کے انتہا پسند گروپوں کی موجودگی میں معتدل اور صحت مند مکالمے کا امکان معدوم ہوجاتا ہے۔
تجزیہ کاروں کو یقین ہے کہ نومبر کے انتخابات میں ری پبلکن صدارتی امیدوار مٹ رومنی کنٹکی کا میدان مارلیں گے اور ان کی اس کامیابی میں 'ٹی پارٹی' کے ووٹر بنیادی کردار اد ا کریں گے۔