رسائی کے لنکس

جنگ زدہ علاقوں میں رپورٹنگ سے متعلق نمائش


جنگ زدہ علاقوں میں رپورٹنگ سے متعلق نمائش
جنگ زدہ علاقوں میں رپورٹنگ سے متعلق نمائش

کسی ملک پر حملے کے لئے عالمی طاقتوں کے فیصلے ، گولہ بارود اور معاشی وسائل درکار ہوتے ہیں ، لیکن جنگ میں ہلاک ہونے والوں میں بہت سےبے ضرر انسانوں کے ساتھ کچھ ایسے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں ، جو خطرے سے جان بچا کر نہیں ، بلکہ خطرے کی طرف بھاگنا پسند کرتے ہیں ۔ یہ لوگ ہیں صحافی اور فوٹوگرافرز ۔ لیبیا میں اس سال ہنگامی صورتحال کی کوریج کے دوران پانچ فوٹوگرافر ہلاک ہو چکے ہیں۔

نمائش میں ایک ایسی دستاویزی فلم Restrepo بھی رکھی گئی ہے جو افغانستان کی خطرناک وادی کارینگل میں ایک فوجی پلاٹون کی سرگرمیوں پرمبنی ہے۔ ایک سال کی مدت کے دوران فلمبند ہونےو الی یہ دستاویزی کہانی اس سال اکیڈمی ایوارڈ کے لئے نامزد ہوئی تھی ۔فلم کے کو ڈائریکٹر ٹم ہیتھرنگٹن کا کہنا ہے کہ وہ لوگوں کو جنگ کی سنگینی کا احساس دلانا چاہتے تھے ۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ فلم یہ احساس دلانے کے لئے ہے کہ ہم حالت جنگ میں ہیں ، اور حالت جنگ میں ہونے کا کیا مطلب ہوتا ہے ۔

ٹم ہیتھرنگٹن اس سال اپریل میں لیبیا میں ہلاک ہو گئے ، ان کے ساتھی ڈائریکٹر سباسٹین جنگر کہتے ہیں کہ انہیں ہیتھرنگٹن کی موت کا صدمہ ہے ، لیکن انہیں اپنے کام کے خطرات کا اندازہ ہے ۔

ان کا کہنا ہے کہ ہماری دنیا برابری اور انصاف پر مبنی نہیں بن سکتی ، جب تک کہ معلومات کا بہاؤ بلا رکاوٹ نہ ہو ۔ صحافی اس کام میں ایک زبردست کردار ادا کرتے ہیں اور اسی اصول کے لئے میں کسی حد تک اپنی جان خطرے میں ڈالنے کو تیار ہو ں ۔

خبر رساں ایجنسی ایسو سی ایٹڈ پریس کےفوٹو ڈائریکٹر سانٹیاگو لیون کے خیال میں اگر آپ یہ یقین رکھے بغیر جنگ کی رپورٹنگ کر رہے ہیں کہ اس کام سے ایک آزاد معاشرے کے قیام میں مدد مل سکتی ہے ، تو آپ اپنا وقت ضائع کررہے ہیں ۔

ان کا کہناہے کہ جنگ یا کسی تنازعے کو قریب سے دیکھنے کا تجربہ اپنے اندربہت طاقتورہوتا ہے ، کیونکہ آپ اپنی زندگی خطرے میں ڈال کر یہ کام کرتے ہیں ۔ اور جیسے کہ ونسٹن چرچل نے کہا تھا، زندگی میں اس سے ولولہ انگیز کوئی چیز نہیں ہو سکتی کہ آپ کو لگنے والی گولی بے نتیجہ ثابت نہ ہو ۔

اور یہی جوش ہے جو ان فوٹوگرافرز کو خطروں سے کھیلنے کی ترغیب دیتا ہے ۔ اس کام کی تاریخ 1854ء میں روسی سلطنت اور برطانیہ ، ترکی اور چند اور ملکوں کی اتحادی فوج کے درمیان دوسال تک جاری رہنے والی جنگ کریمیا سے شروع ہوتی ہے ، جب فوٹوگرافرزنے تصویریں دھونے والی لیبارٹریز بھی میدان جنگ میں قائم کر لی تھیں ۔ امریکی خانہ جنگی کے زمانے کی ایک مشہور تصویر اس دور کےاولین امریکی فوٹوگرافرمیتھیو بریڈی نے کھینچی تھی ۔ موشن پکچرز نے پہلی جنگ عظیم کو فلم بند کیا اور آج جدید ٹیکنالوجی صحافیوں کو میدان جنگ میں لڑنے والے فوجیوں کے شانہ بشانہ اپنا کام کرنے کا موقعہ دے رہی ہے ۔خوفناک تصویریں جنگ بند تو نہیں کرا سکتیں ، لیکن سانٹیاگو لیون کہتے ہیں کہ وہ رائے عامہ کو جنگ کے خلاف کر سکتی ہیں ، جیسا کہ ویت نام جنگ کے دوران ہوا ۔

سباسٹین جنگر کہتے ہیں کہ جنگ کو بیان کرنا آسان ہے ، یہ اس کھیل کی طرح ہے جس میں ہتھیار بھی شامل ہوں ، لیکن مشکل تب ہوتی ہے جب آُپ کو اخلاقی سوالوں کے جواب دینے پڑتے ہیں ، سیباسٹین کو یاد ہے ، ایک سابق امریکی فوجی نے ایک بار ان سے کیا کہا تھا کہ وہ میرے ساتھیوں کو مارنے کی کوشش کر رہے تھے ،تو میں نے انہیں پہلے مار دیا ۔ پھر یہ بھی ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی وہ کیوں کر رہا ہے جو کررہا ہے ، خدا اس بارے میں کیا کہتا ہوگا ؟ جبکہ وہ فوجی خدا پریقین ہی نہیں رکھتا تھا ۔ پھر بھی وہ اس بات سے پریشان تھا ۔

تاہم سباسٹین کہتے ہیں کہ تصویریں جنگ کی مکمل کہانی نہیں سناتیں ، اس لئے انہوں نےدستاویزی فلم بنانے کے ساتھ جنگ پر ایک کتاب بھی لکھی۔

سانٹیاگو لیون بھی اس سے متفق ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ الفاظ تصویروں کو معنی دیتے بھی ہیں اور اس سے محروم بھی کرتے ہیں ، اور چاہے جنگ کی کہانی سنانے کے لئے کیمرہ استعمال کیا گیا ہو یا قلم ، جنگ کی رپورٹنگ کرنے والے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر یہ کام کرتے ہیں ۔

XS
SM
MD
LG