امریکہ افغانستان میں غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے خواتین کو دی جانےوالی ملازمتوں پر طالبان کی پابندی کے اثرات کا جائزہ لے رہا ہے اور اس بارے میں ایسی پالیسیوں پر غور کررہا ہے جو جلد ہی سامنے آسکتی ہیں ۔
امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے دنیا بھر میں خواتین کی اقتصادی سیکیورٹی پر بدھ کے روز پہلی امریکی حکمت عملی کے اجراء کے موقع پر کہا کہ جہاں کہیں بھی خواتین کے حقوق کو خطرہ لاحق ہو ہم ان کا ساتھ دینے کا عزم رکھتے ہیں ،ان میں افغانستان شامل ہے جہاں بد قسمتی سے ہم حالات کو مسلسل بد تر ہوتے دیکھ رہے ہیں۔
اعلیٰ امریکی حکام طالبان پر بار بار زور دے چکے ہیں کہ وہ خواتین پر این جی اوز میں کام کرنے اور پبلک اور پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں جانے سے روکنے سے متعلق پابندیاں ختم کریں اور وہ انہیں اس کا خمیازہ بھگتنے کے بارے میں ا انتباہ کر چکے ہیں۔
بدھ کے روز امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ واشنگٹن طالبان کے خلاف مخصوص نتائج کا جائزہ لے رہا ہے، لیکن انہوں نے تفصیلات نہیں بتائیں۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ امریکہ دنیا بھر میں اپنے ہم خیال شراکت داروں کے ساتھ کام کر رہا ہے تاکہ افغان عوام کی حمایت کرتے ہوئے طالبان کے خلاف مذمت کا اظہار کرنے کے لیے متعدد مخصوص اقدامات تشکیل دیے جا سکیں۔
پرائس نے مزید کہا کہ امریکی پالیسی سے متعلق ا یسا رد عمل محتاط ہو گا تاکہ افغان عوام کی انسانی فلاح و بہبود کو مزید نقصان نہ پہنچے۔
طالبان باقی دنیا کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں اور وہ ملکوں سے کھلے عام افغانستان میں سرمایہ کاری کے لیے کہہ چکے ہیں ۔ لیکن امریکہ نے کہا ہے کہ طالبان اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ وہ دونوں طریقے اپنا سکتے ہیں یعنی یہ کہ وہ افغان خواتین کو ان کے حقوق سے محروم کر سکتے ہیں اور دوسرے ملکوں سے تعلقات مستحکم کرنے کی امید بھی رکھ سکتے ہیں ۔
2022میں پورے سال افغانستان میں حکمران طالبا ن نے صنفی بنیاد پر کچھ ایسی بد ترین امتیازی پالیسیاں متعارف اور نافذ کی ہیں جو کہیں نہیں دیکھی گئیں ۔
دسمبر کے آخر میں ، طالبان نے خواتین کی تعلیم پر مزید پابندیاں عائد کرتے ہوئے ان کے یونیورسٹیوں میں جانے پر پابندی عائد کر دی ۔
اگست 2021 میں اقتدار میں واپسی کے کچھ ہی عرصے بعد طالبان نے لڑکیوں کو سیکنڈری اسکولوں سے خارج کر دیا ۔طالبان اقتدارکے تحت افغانستان وہ واحد ملک ہے جہاں لڑکیوں پر ان کی صنف کی وجہ سے اسکول جانے پر پابندی عائد ہے ۔
24دسمبر کو طالبان نے ایک حکم نامہ جاری کیا جس میں افغانستان میں انسانی ہمدردی کی غیر ملکی اور ملکی تنظیموں کو خواتین کو ملازمت دینے سے روک دیا گیا اور انتباہ کیا گیا کہ جو گروپ بھی اس حکم کی تعمیل میں ناکام رہے گا ا اس کا لائسنس منسوخ کر دیا جائے گا۔
امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق، 11 این جی اوز کے ایک اتحاد کو افغانستان میں اپنی کارروائیاں معطل کرنا پڑیں ۔
افغان خواتین کے لیے امریکہ کی خصوصی ایلچی رینا امیری نے وی او اے کی دیوا سروس کو اسکائپ پر ایک حالیہ انٹرو یو میں بتایا کہ یہ مذہب نہیں، سیاست ہے ۔
انہوں نے کہا کہ میں نے دنیا بھر میں جس بھی مسلم اکژیت (والے ملک) کےنمائندے سے بات کی ہے ، خواہ وہ سعودی عرب ، قطر ، متحدہ عرب امارات ، انڈو نیشیا ، ملائشیا یا جس بھی ملک کا نمائندہ تھا اس نے یہی کہا ہے کہ طالبان ہر جگہ اسلام کے تصورکو نقصان پہنچا رہے ہیں ۔
کچھ لوگ خواتین کی تعلیم پر پابندی کےطالبان کے فیصلے کو اندرونی چپقلش کی علامت کے طور پر دیکھتے ہیں۔
امیری نے کہا کہ یہ طالبان کے اندر ایک ایسا سخت گیر عنصر ہے جو اپنی طاقت کو مضبوط کرنے اور اس طاقت کو بروئے کار لانے کی کوشش کر رہا ہے۔
بدھ کے روز امریکی محکمہ خارجہ نے دنیا بھر میں اداروں کے اندر خواتین کی اقتصادی سیکیورٹی میں اضافے کے لیے ایک حکمت عملی پیش کی۔جس کا مقصد دنیا میں خواتین اور لڑکیوں کے لیے تعلیم ، اختراع اور معیاری ملازمت تک مساوی رسائی کو فروغ دینا ہے ۔
امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق اس سے عالمی جی ڈی پی میں 5 اعشاریہ تین ٹریلین کا اضافہ ہو سکتا ہے جس سے سب کے لیے معاشی تحفظ اور خوشحالی میں اضافہ ہو گا۔
امریکہ کی سرکاری ایجنسیاں بدھ کو اس حکمت عملی کے اجراء کے بعد، چھ ماہ کے اندر انفرادی ایکشن پلان مرتب کریں گی جو امریکی خارجہ پالیسی، بین الاقوامی پروگرامنگ اور ترقیاتی امداد کے بارے میں آگاہ کریں گے ۔
امریکی حکام نے کہا کہ امریکہ صنفی مساوات اور مساوات ایکشن فنڈ کے ذریعے افغان خواتین کی مدد جاری رکھے گا، جو دنیا بھر میں مقامی اور سول سوسائٹی کے شراکت داروں کے لئے سرمایہ کاری کرتا ہے۔
یہ رپورٹ وی او اے کی دیوا سروس کےتعاون سے تیار کی گئی ہے۔