اس اسکینڈل کی ابتدا 17 جون، 1972 کو علی الصباح ہوئی۔ پانچ افراد کوجو صدر رچرڈ نکسن کے دوبارہ صدر منتخب ہونے کی مہم کے لیے کام کر رہے تھے، اس وقت گرفتار کر لیا گیا جب وہ واٹر گیٹ کمپلیکس میں قائم، ڈیموکریٹک پارٹی کے ہیڈ کوارٹرز میں نقب زنی کی کوشش کر رہے تھے۔
اخبار واشنگٹن پوسٹ کے دو رپورٹروں، کارل بیرنسٹین اور بوب وڈورڈ نے اس واقعے کی خبر دی۔ انہیں پتہ چلا کہ واٹر گیٹ میں علی الصباح چوری چھپے داخل ہونا، نکسن کے دوبارہ انتخاب کی مہم کے، ایک بڑے پروگرام کا حصہ تھا جس کا مقصد صدر کے سیاسی مخالفین کو نقصان پہنچانا تھا ۔ وڈورڈ کا کہنا ہے کہ ’’ہم نے ان لوگوں کے نام بتا دیے جو اس مجرمانہ سازش کی مخصوص کارروائیوں میں شریک تھے۔ اس سازش کا مقصد ہمارے آزاد انتخابی نظام کو تباہ کرنا اور ڈیموکریٹس کے خلاف جاسوسی کرنا اور ان کی انتخابی کوششوں کو سبو تاژ کرنا تھا۔‘‘
واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹنگ کے بعد، فوجداری تفتیش کی گئی اور امریکی کانگریس نے بھی چھان بین کی، اور پتہ چلا کہ نکسن کی انتخابی مہم اور خود صدر سمیت وائٹ ہاؤس کا عملہ ،ان مجرمانہ سرگرمیوں پر پردہ ڈالنے کی ایک بہت بڑی کوشش میں ملوث تھا۔
1973ء کے دوران سینیٹ کی سماعتوں کے میں ، یہ بات سامنے آئی کہ نکسن نے وائٹ ہاؤس میں اپنی تمام بات چیت ریکارڈ کی تھی، اور ان ٹیپوں سے، بالآخر، اس معاملے پر پردہ ڈالنے کی کوشش میں نکسن کے ملوث ہونے کا ثبوت مل گیا۔
وائس آف امریکہ کے ڈیوڈ دیار نے یونائیٹڈ پریس انٹرنیشنل کے لیے ایک نوجوان رپورٹر کی حیثیت سے، واٹر گیٹ اسکینڈل کو کور کیا تھا۔ انھوں نے 1973ء میں صدر نکسن کے واٹر گیٹ اسپیشل پراسیکیوٹر کو برطرف کیے جانے کے فیصلے کی خبر بھی دی تھی۔ انھوں نے کہا کہ ’’جب میں وائٹ ہاؤس کے بریفنگ روم میں، یہ سب کچھ سن رہا تھا، تو وہاں موجود بہت سے لوگوں کو یہ احساس تھا کہ صحیح معنوں میں تاریخ لکھی جا رہی ہے اور یہ کہ صدرِ امریکہ نے خود کو قانون سے بالا تر سمجھ لیا تھا اور ملک کے نظامِ انصاف کی آئینی بنیاد کو چیلنج کیا جا رہا تھا۔ ایک رپورٹر کی حیثیت سے میں نے کبھی اس سے زیادہ ڈرامائی صورتِ حال کا مشاہدہ نہیں کیا۔‘‘
جیسے ہی وائٹ ہاؤس کےٹیپوں سے پتہ چلا کہ اس واقعے پر پردہ ڈالنے میں نکسن ملوث تھے، کانگریس میں ریپبلیکن پارٹی میں ان کی حمایت ختم ہو گئی، اور اگست 1974ء میں، انھوں نے اپنے استعفے کا اعلان کر دیا۔ ان کے مطابق ’’میں کبھی میدان چھوڑ کر فرار نہیں ہوا ۔ اپنے عہدے کی مدت مکمل کرنے سے پہلے عہدے کو چھوڑنے کا تصور ہی میرے لیے نا قابلِ قبول ہے۔ لیکن صدر کی حیثیت سے، مجھے امریکہ کے مفادات کو فوقیت دینی چاہیئے۔‘‘
مسٹر نکسن کے نائب صدر، جیرالڈ فورڈ، نے صدر نکسن کے رخصت ہونے کے بعد، صدر کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ انھوں نے ملک کی یکجہتی کو بحال کرنے کے لیے، فوری اقدامات کیے۔ انھوں نے کہا کہ’’میرے ہم وطن امریکیو، ہمارے ملک کی طویل ڈراؤنی شب ختم ہو چکی ہے۔ ہمارا آئین برقرار ہے۔ ہماری عظیم جمہوریہ کی اساس قوانین ہیں، انسان نہیں۔ یہاں، عوام حکومت کرتے ہیں۔‘‘
امریکن یونیورسٹی کے تاریخ داں ایلن لچمین کہتے ہیں کہ کسی صدر اور اس کے عملے کی طرف سے جمہوری عمل کو نقصان پہنچانے کی جتنی بھی کوششیں کی گئی ہیں، واٹر گیٹ ان میں آج بھی سنگین ترین ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’یہ بہت بڑی سازش تھی۔ نکسن کی انتخابی مہم اور نکسن انتظامیہ کے اعلیٰ عہدے داروں سمیت، کئی درجن لوگ جیل بھیج دیے گئے۔ بہت سے لوگ جن سے اس قسم کی سازش میں ملوث ہونے کی توقع نہیں کی جانی چاہیئے تھے، اس ہولناک اسکینڈل کا شکار ہو گئے۔ یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کیوں کہ رچرڈ نکسن نے کئی اعتبار سے اس ملک کی بڑی خدمت کی تھی۔‘‘
آج 40 سال بعد، بہت سے لوگوں کی نظر میں، واٹر گیٹ اسکینڈل نہ صرف جمہوری عمل کی فتح ہے بلکہ ایک جمہوری معاشرے میں آزاد پریس کی اہمیت کی درخشاں مثال بھی ہے۔