امریکہ کی مغربی پہاڑی ریاستوں یوٹا اور نیو میکسیکو میں ذہنی دباؤ اور خودکشی کی شرح کسی بھی امریکی ریاست کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔
2017 میں ان دونوں ریاستوں میں ذہنی دباؤ کے سب سے زیادہ کیسز سامنے آئے، جبکہ 2016 میں الاسکا، وائومنگ، نیو میکسیکو اور یوٹا کے مقابلے میں مونٹانا میں سب سے زیادہ خودکشیوں اور ذہنی دباؤ کے کیسز دیکھے گئے۔
ماہرین اس کی وجہ نہ صرف خاندانی نظام کی تباہی، مذہب سے دوری اور الکوحل کا بے دریغ استعمال بتاتے ہیں بلکہ ان کے خیال میں جدید اسلحے تک آزادانہ رسائی بھی اس کی ایک بڑی وجہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق اگرچہ ذہنی دباؤ اور دماغی امراض خودکشی کے لئے اہم خطرہ ہیں لیکن خودکشی کا جذباتی فیصلہ کرنے والا ہر شخص دماغی بیمار نہیں ہوتا اور نہ ہی تمام خودکشیوں کا تعلق ذہنی بیماری سے جوڑا جا سکتا ہے۔ خودکشی کرنے والے صرف 7 فیصد مرد اور ایک فیصد عورتوں کا تعلق دماغی امراض اور ذہنی دباؤ سے ہے۔
تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ بڑھتی ہوئی خودکشیوں اور ذہنی دباؤ کی اصل وجہ کیا ہے؟ ماہرین کہتےہیں کہ ذہنی دباؤ اور خودکشی کی کئی وجوہات ہوتی ہیں، لیکن جہاں بھی سخت سردی ہو گی اور جذباتی صورت حال میں سہارا دینے کا کوئی نظام نہ ہو تو خواہ وہ امریکہ ہو یا پاکستان، خودکشی کا رجحان زیادہ ہو گا۔
نیویارک میں نفسیاتی علاج کی ماہر ڈاکٹر ریحانہ لطیف کہتی ہیں کہ پاکستان جیسے ممالک میں مذہبی سماج خودکشیوں کی روک تھام میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
ڈاکٹر ریحانہ لطیف کے بقول ہمارے جیسے ملکوں میں خودکشی کو سخت برا سمجھا جاتا ہے اور اسے حرام موت کہا جاتا ہے۔ اس لئے لوگ خودکشی جیسے انتہائی اقدام سے گریز کرتے ہیں۔ لیکن جہاں کہیں دین کا رجحان کم ہوتا ہے وہاں لوگ جلد مایوس ہوجاتے ہیں جبکہ موسم کا بھی ذہنی صحت پر اثر پڑتا ہے۔
ڈاکٹر ریحانہ لطیف کہتی ہیں کہ اگر سردی بہت زیادہ ہو اور دھوپ نہ ہو تو دماغ میں ایک خاص قسم کا کیمیائی مادہ نہیں بنتا۔ اس صورتِ حال میں لوگ منشیات میں فوری پناہ تلاش کرتے ہیں، لیکن رفتہ رفتہ منشیات کا اثر بھی گھٹتا جاتا ہے اور متاثر شخص مزید ذہنی دباؤ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اور پھر اگلے مرحلے میں اس کے ذہین میں خودکشی کی سوچ پیدا ہونے لگتی ہے اور اس دوران انہیں کوئی سہارا یا راہنمائی نہ ملے تو وہ خودکشی کی جانب راغب ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر ریحانہ لطیف کے مطابق زیادہ تر لوگ منشیات اور شراب نوشی کی وجہ سے خودکشی جیسے انتہاء اقدام کی جانب راغب ہوتے ہیں۔
لیکن ایک اور ماہر نفسیات ڈاکٹر سہیل چیمہ کہتے ہیں کہ امریکہ کے مغربی حصے کو آج سے نہیں بلکہ انیسویں صدی کے آغاز سے ہی خودکشی بیلٹ کہا جاتا رہا ہے، جس کی کئی وجوہات ہیں لیکن سب سے اہم وجہ مہلک ہتھیاروں تک آزادانہ رسائی ہے، جس کی مدد سے لوگ خودکشی کر لیتے ہیں۔
ڈاکٹر سہیل چیمہ کا کہنا ہے کہ امریکہ بھر میں ہتھیاروں تک آزادانہ رسائی کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ یعنی امریکہ میں ہرایک سو افراد کے پاس مجموعی طور پر 106 ہلاکت خیز ہتھیار موجود ہیں۔ اس میں بھی وائمنگ، جیسے مغربی علاقے میں یہ شرح بہت زیادہ ہے۔ اسی لئے وائمنگ میں خودکشی کی شرح بھی زیادہ ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق اس ریاست میں ہر شخص کے پاس ایک سے زیادہ ہتھیار موجود ہیں۔ وائمنگ میں ہر سال ایک لاکھ افراد میں خودکشی کر کے اپنی جان لینے والوں کی تعداد 23 ہے۔ جبکہ واشنگٹن ڈی سی میں یہ شرح ایک لاکھ میں 6 افراد کی ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کے پاس زیادہ اسلحہ نہیں ہے۔
ڈاکٹر سہیل چیمہ کے مطابق خودکشی اور ذہنی دباؤ کی دوسری بڑی وجہ ان علاقوں میں شمال مشرقی ریاستوں کے مقابلے میں ذہنی صحت کی سہولتوں اور اس سے متعلق شعور کی کمی بھی ہے۔ اس کے علاوہ بھی دیگر عوامل ہیں، جن علاقوں آبادی کم ہوتی ہے وہاں لوگوں سماجی رابطے بھی کمزور پڑجاتے ہیں اور جذباتی حالت میں سہارے کا نظام قائم نہیں رہتا، جو ذہنی دباؤ کا باعث بنتا ہے اور اسلحے کی موجودگی میں ذہنی دباؤ میں مبتلا افراد باآسانی خودکشی کی جانب راغب ہو جاتے ہیں۔