رسائی کے لنکس

عرب دنیا میں صدر اوباما کی مقبولیت کم ہوئی ہے: نیویارک ٹائمز


ایک فلسطینی ٹیلی ویژن پر صدر اوباما کی تقریر سن رہاہے
ایک فلسطینی ٹیلی ویژن پر صدر اوباما کی تقریر سن رہاہے

رائے عامہ کے اس جائزے سے ظاہر ہوا ہے کہ اوباما کی جانب سے اسرائیل کو کنارے پر لگانے سے انہیں نئے دوست نہیں ملے بلکہ ان کا ایک پرانا دوست ا ن سے الگ ہو گیا جب کہ اس سے امن کا کوئی معاہدہ بھی نہیں طے پا سکا ، ا ور اس کا طے پانا ابھی تک اتنا ہی دشوار ہے جتنا اس سے پہلے کبھی بھی تھا۔

اخبار نیو یارک پوسٹ نے اپنے ایک اداریے میں رائے عامہ کےجائزوں سے متعلق بین الاقوامی ادارے Zogby کی طرف سے عرب ملکوں میں صدر اوباما اور امریکہ کی مقبولیت پر کرائے گئے رائے عامہ کے ایک حالیہ جائزے کو موضوع بناتے ہوئے لکھا ہے کہ بیشتر عرب ملکوں میں مقبولیت کی شرح گزشتہ دو برسوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہوئی ہے اور بیشتر ملکوں میں یہ شرح بش انتظامیہ کے اختتام کے وقت سے بھی کم ہے ۔

اخبار مصریوں میں امریکہ کی پسندیدگی کی شرح میں کمی کا خاص طور پر ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ مصر میں ،جہاں دو سال قبل قاہرہ میں اپنے خطاب میں صدر اوباما نے مسلم دینا سے ایک نئی شروعات کا وعدہ کیا تھا صرف پانچ فیصد باشندوں نے امریکہ کے لیے اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا جو 2009 کے مقابلے میں پسندیدگی کی شرح میں تیس فیصد کمی ہے جبکہ مصر کے صرف چار فیصد ، اردن کے چھ فیصد اور سعودی عرب کے صرف دس فیصد باشندوں نے کہا کہ اوباما ان کی توقعات پر پورے اترے ہیں۔ جب کہ لبنان کے 99 فیصد باشند ے انہیں مکمل طور پر ناکام سمجھتے ہیں۔ جس کا مطلب اخبار کے بقول یہ ہے کہ متحار ب مسلمان ، عیسائی اور دوسرے نسلی گروپس آخر کار کسی بات پر متفق ہو گئے ہیں۔

اخبار خیال ظاہر کرتا ہے کہ عرب دنیا میں مسٹر اوباما کی مقبولیت میں اس کمی کی اصل وجہ اوسامہ بن لادن کی ہلاکت ہو سکتی ہے ۔ تاہم اخبار لکھتا ہے کہ جن دو امور پر اوباما انتظامیہ نے اپنی بھر پور توانائیاں صرف کیں ، یعنی مسئلہ فلسطین اور مسلم دنیا سے اپنے ربط ضبط ، دونوں پر ہی ان کی مقبولیت کی شرح سب سے کم رہی ۔ اخبار اپنے اداریے کو سمیٹتے ہوئے لکھتا ہے کہ رائے عامہ کے اس جائزے سے اس کے بقول یہ سبق ملتا ہے کہ اوباما کی جانب سے اسرائیل کو کنارے پر لگانے سے انہیں نئے دوست نہیں ملے بلکہ ان کا ایک پرانا دوست ا ن سے الگ ہو گیا جب کہ اس سے امن کا کوئی معاہدہ بھی نہیں طے پا سکا ، ا ور اس کا طے پانا ابھی تک اتنا ہی دشوار ہے جتنا اس سے پہلے کبھی بھی تھا۔

اخبار واشنگٹن ٹائمز نے اپنے ایک اداریے میں لیبیا میں جاری نیٹو قیادت کے مشن کو موضوع بناتے ہوئے لکھا ہے کہ گزشتہ چار ماہ سے ہمیں بتایا جارہا ہے کہ کرنل معمر قذافی اقتدار سے الگ ہونے اور ہتھیار ڈالنے کے لیے تقریباً تیار ہیں لیکن یورپ کے قریب اور بحیرہ روم پرواقع اس چھوٹی سی پولیس اسٹیٹ نے ، نیٹو اتحاد کی تین بڑی طاقتوں اورہزاروں عرب نژاد باغیوں کو مسلسل مشکل میں ڈال رکھا ہے ۔

اخبار لکھتا ہے کہ نیٹو کی فورسز نے کرنل قذافی کے جتنے زیادہ ٹینک ، توپیں طیارے اور کشتیاں تباہ کیں ڈکٹیٹر اتنا ہی زیادہ اقتدار سے چمٹا ہو ادکھائی دیا ۔ اخبار دہشت ، تیل ، نقد سرمایہ ، اورزر پرست وفادار فوج کو قذافی کے اقتدار کی طوالت کی وجوہات قرار دیتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ انتباہ بھی کرتا ہےکہ یہ جنگ جتنا زیادہ طول کھینچ رہی ہے اتنا ہی زیادہ عرب دنیا میں اس بارے میں اختلاف رائے بڑھ رہا ہے کہ نفرت کے قابل کرنل قذافی ہیں یا مسٹر اوباما کے بم۔

اخبا رلیبیا کے خلاف اس مشن کو غیر ضروری مہم قرار دیتے ہوئے لکھتا ہےکہ اوباما انتظامیہ نے لیبیا کے خلاف مشن کے لیے عرب لیگ اور اقوام متحدہ سے تو قانونی اختیار دینے کی درخواست کی لیکن آج تک کانگریس سے ایسی کوئی درخواست نہیں کی ہے ۔ اور اخبار لکھتا ہے کہ بین الاقوامی قانونی اختیار نامے کی درخواست کرتے ہوئے انہوں نے اس چیز کو بھی نظر انداز کیا کہ نہ تو اقوام متحدہ اور نہ ہی عرب لیگ کی قرار دادوں نے انہیں کرنل قذافی کے حکمران گروپ کے خلاف کسی بھر پور سطح کی فضائی جنگ کی اجازت دی ہے۔دوسری طرف اخبار لکھتا ہےکہ اندرون ملک قدامت پسندوں اور لبرلز دونوں ہی اس اچانک شروع کی جانے والی اس حفظ ما تقدم جنگ پر گومگو کے عالم میں رہے ۔ اور قدامت پسندجو افغانستان اور عراق کی جنگوں کی حمایت کر چکے تھے ،لیبیا میں کانگریس کے کسی اختیار اور کسی واضح بیان کردہ مشن یا حکمت عملی کے بغیر کسی تیسری جنگ میں شمولیت پر متذبذب رہے ۔

تاہم اخبار اپنا مضمون سمیٹتے ہوئے لکھتا ہے کہ دائیں اور بائیں بازو دونوں میں یہ عمومی اتفاق رائے موجود ہے کہ ہمیں یہ غلط مہم جس قدر جلد ہو سکے ختم کر دینی چاہیے۔ کیو ں کہ اخبار لکھتا ہے کہ کسی جنونی شخص کے خلاف ایک فضول اور غیر ضروری جنگ شروع کرنے سے بھی بد تر بات اس سے یہ جنگ ہارنا ہے۔

اخبار بوسٹن گلوب نے اپنے ایک ادار یے میں دہشت گردی کے انسداد سے متعلق اوباما انتظامیہ کی گزشتہ ماہ جاری کردہ اسٹرٹیجی کو اپنا موضوع بناتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ در اصل دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متعلق بش انتظامیہ کی اس پالیسی کی ایک درست کردہ شکل ہے جسے بہت پہلے درست کر دیا جانا چاہیے تھا۔

اخبار لکھتا ہے کہ بش انتظامیہ کی پالیسی میں دشمن کی واضح شناخت نہیں کی گئی تھی اور اس جنگ کو دہشت گردی کے خلاف جنگ قرار دے کر اذیت رسانی اور غیر معمولی اقدامات کا جواز پیش کرنے میں مدد کی تھی اور ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا مطلب تھا کہ امریکہ کو دنیا میں کسی بھی جگہ مسلح تنازعوں میں دھکیلا جا سکتا تھا جو اخبار کے بقول اوسامہ بن لادن چاہتا تھا ۔ لیکن اخبار لکھتا ہے کہ گزشتہ ماہ اوباما انتظامیہ کی پالیسی نے القاعدہ کو دشمن قرار دے کر دشمن کی ایک واضح شناخت پیش کر دی ہے]

تاہم اخبار لکھتاہے کہ القاعدہ کی بلا شبہ دنیا بھر میں بہت سی ڈھیلی ڈھالی شاخیں ہیں اور اوباما انتظامیہ کو عالمی سطح پر اپنے فوکس سے نہیں ہٹنا چاہیے۔ کیوں کہ اخبار کے بقول اسلامی انتہا پسندی کے خلاف جنگ کا دائرہ ابھی تک وسیع ہے اور اس کے کئی پہلو ہیں لیکن اب انسداد دہشت گردی کی امریکی کوششوں میں غیر ضروری فوجی مہمات کا دائرہ کم سے کم ہونا چاہیے اور ان کا ہدف اب صرف اور صرف القاعدہ کے وہ حواری ہونے چاہیں جو امریکی سر زمین کو ہدف بناتے ہیں ۔

اخباریہ مشورہ بھی دیتا ہے کہ امریکی پالیسی سازوں کو مسلم ملکوں میں اضافی زمینی جنگوں میں نہیں الجھنا چاہیے ۔ کیو نکہ ا ایسا صرف القاعدہ کے ہی مفاد میں ہو گا۔اخبار اس رائے پر اپنا اداریہ سمیٹتا ہے کہ القاعدہ کے خلاف جنگ میزائیل حملوں سے نہیں بلکہ اسلامی دنیا کی جانب سے ایک شیطانی فریب کو مسترد کیے جانے سے جیتی جائے گی ۔

XS
SM
MD
LG