رسائی کے لنکس

عثمان خواجہ پاکستان کے خلاف میچ میں 'قابلِ اعتراض' جوتے نہیں پہنیں گے: آسٹریلوی کپتان


آسٹریلیا کے کپتان پیٹ کمنز نے تصدیق کی ہے کہ آسٹریلوی بیٹر عثمان خواجہ پاکستان کے خلاف پہلے ٹیسٹ میچ میں ایسا جوتا نہیں پہنیں گے جس پر کوئی پیغام درج ہو گا۔

اس حوالے سے عثمان خواجہ نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو پیغام بھی جاری کیا ہے۔

انہوں نے بھی تصدیق کی ہے کہ انہیں آگاہ کیا گیا ہے کہ آئی سی سی کے قوانین کے مطابق وہ کھیل کے دوران ایسے جوتے نہیں پہن سکتے جس پر کوئی سیاسی جملہ تحریر ہو۔ اس لیے وہ آئی سی سی کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں۔

ان کے بقول وہ تو ایسا جوتا پہننے والے تھے جس پر انسانیت سے متعلق جملے تحریر تھے۔

اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہ عزم بھی ظاہر کیا کہ وہ اس کا مقابلہ کریں گے اور یہ جوتا پہننے کی اجازت حاصل کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’آزادی انسانی حق ہے‘ اور ’تمام زندگیاں برابر ہیں‘۔ واضح رہے کہ وہ پاکستان کے خلاف جمعرات سے شروع ہونے والے پہلے ٹیسٹ میچ میں جو جوتا پہننا چاہتے تھے اس پر یہی دو جملے درج تھے۔

قبل ازیں انہوں نے یہ جوتے ٹریننگ سیشن کے دوران بھی پہنے تھے۔

پاکستانی نژاد آسٹریلوی بیٹر نے ویڈیو پیغام میں مزید کہا کہ ’’ہم کھلاڑیوں کے ذاتی خیالات کے اظہار کے حق کی حمایت کرتے ہیں۔‘‘

واضح رہے کہ عثمان خواجہ غزہ میں فلسطینیوں کی اموات کے معاملے پر یہ جوتے پہننا چاہتے تھے۔

آسٹریلیا کے کپتان پیٹ کمنز نے پریس کانفرنس میں کہا کہ انہوں نے عثمان خواجہ سے بات کی ہے۔ جنہوں نے انہیں بتایا ہے کہ وہ یہ جوتے نہیں پہنیں گے۔

ان کے بقول عثمان خواجہ کسی بڑی پریشانی کا سبب نہیں بننا چاہتے۔

اس کے ساتھ ساتھ پیٹ کمنز نے عثمان خواجہ کے اظہار کی آزادی کے حق کی حمایت کی۔

واضح رہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کے قواعد کے مطابق کھلاڑیوں کے لیے میچوں کے دوران کسی بھی قسم کے سیاسی، مذہبی اور نسلی بنیادوں پر پیغامات پر پابندی ہے۔

قبل ازیں 2021 میں آئی سی سی نے انگلینڈ کے آل راؤنڈر معین علی پر بھی پابندی عائد کی تھی کہ غزہ یا فلسطینیوں کے حق میں ہاتھ پر بینڈ نہیں پہن سکتے۔

عثمان خواجہ کا ویڈیو میں مزید کہنا تھا کہ وہ زیادہ کچھ نہیں کہنا چاہتے اور انہیں کہنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔

ان کے بقول انہوں نے اپنے جوتے پر جو بھی لکھا ہے وہ کوئی سیاسی پیغام نہیں ہے۔ وہ کسی کی طرف داری نہیں کر رہے۔ انسانوں کی زندگی برابر ہوتی ہے۔ ایک یہودی کی زندگی ایک مسلمان کی زندگی کے ہی برابر ہے اور ان کی زندگی ایک ہندو کے ہی برابر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ ان کے لیے آواز بلند کرنا چاہتے ہیں جن کی اپنی آواز نہیں ہے اور یہی ان کے دل کے قریب ہے۔

ان کے مطابق ’’جب میں ہزاروں بے گناہ بچوں کو مرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو مجھے میری دو بیٹیوں کا خیال آتا ہے۔ اگر وہ ان بچوں کی جگہ ہوتیں تو کیا ہوتا؟"

XS
SM
MD
LG