دیپک دھوبل، مظفرنگر۔۔۔ —
مغربی اتر پردیش میں جمعرات، 10 اپریل سےانتخابات ہو رہے ہیں۔ مظفرنگر کے ووٹروں کا عام تاثر یہ ہے کہ پچھلے سال اگست اور ستمبر میں ہندو مسلم فسادات کا معاملہ ابھی تک لوگوں کے ذہن پر حاوی معلوم دیتا ہے، جس کے باعث، ممکنہ طور پر، ووٹنگ میں مذہبی تفریق اثر انداز ہوسکتی ہے۔
اِن فسادات کے نتیجے میں 50 افراد ہلاک، جب کہ 50000سے زائد بے گھر ہوئے تھے۔
بدھ کے روز ’وائس آف امریکہ‘ نے مظفرنگر کے ووٹروں کے ساتھ گفتگو کی۔ اُنھوں نے بتایا کہ وہ سیاست دانوں سے اس لیے خفا ہیں کہ اُنھوں نے اب تک کوئی کارکردگی نہیں دکھائی۔ بقول اُن کے، اُنھوں نے ماضی میں کوئی کام نہیں کرکے دکھایا؛ بلکہ اُن کی دلچسپی صرف و صرف اپنے ذاتی انتخاب سے ہے۔
بظاہر، لگتا یوں ہے کہ مغربی اُتر پردیش میں ہونے والی 10 نشستوں پر ووٹ ’اشوز‘ پر نہیں پڑیں گے۔
تفصیل سننے کے لیے ہمارے نمائندہٴ خصوصی کی آڈیو رپورٹ سنئیے:
اِن فسادات کے نتیجے میں 50 افراد ہلاک، جب کہ 50000سے زائد بے گھر ہوئے تھے۔
بدھ کے روز ’وائس آف امریکہ‘ نے مظفرنگر کے ووٹروں کے ساتھ گفتگو کی۔ اُنھوں نے بتایا کہ وہ سیاست دانوں سے اس لیے خفا ہیں کہ اُنھوں نے اب تک کوئی کارکردگی نہیں دکھائی۔ بقول اُن کے، اُنھوں نے ماضی میں کوئی کام نہیں کرکے دکھایا؛ بلکہ اُن کی دلچسپی صرف و صرف اپنے ذاتی انتخاب سے ہے۔
بظاہر، لگتا یوں ہے کہ مغربی اُتر پردیش میں ہونے والی 10 نشستوں پر ووٹ ’اشوز‘ پر نہیں پڑیں گے۔
تفصیل سننے کے لیے ہمارے نمائندہٴ خصوصی کی آڈیو رپورٹ سنئیے: