حالیہ برسوں میں ویلنٹائن ڈے کا تہوار تیزی سے مقبول ہواہے۔چند عشرے پہلے تک جنوبی ایشیا ء میں یہ نام بھی شاید کم ہی لوگ جانتے تھے، مگر اب ویلنٹائن کے موقع پرپاکستان تک کےاکثر شہروں میں پھول ڈھونڈے سے نہیں ملتے۔
ویلنٹائن ڈے کو عاشقوں یا محبت کرنے والوں کا دن کہا جاتاہے۔
یہ دنیا کے قدیم ترین تہواروں میں سے ایک ہے۔ کہتے ہیں کہ پہلا ویلنٹائن 498 عیسوی میں روم میں منایا گیا تھا یعنی 15 سو سال سے بھی زیادہ پہلے۔
مگر محبت کی تاریخ اس سے بھی زیادہ پرانی ہے۔ اتنی ہی پرانی جتنا کہ آدم اورحوا ۔ اگر محبت نہ ہوتی تو دنیامیں اولاد آدم بھی نہ ہوتی۔
مگر محبت ہے کیا؟ شاعر اور ادیب اسے سب سے لطیف اور پاکیزہ جذبہ قراردیتے ہیں۔ دنیا بھر کے اوب و فن میں جتنا کچھ اس پر تخلیق کیا گیا ہے، اس کا عشرعشیر بھی کسی اور موضوع کے حصے میں نہیں آیا۔
سائنس دان کہتے ہیں کہ محبت کا جذبہ کرہ ارض کی ہر زی روح مخلوق میں موجود ہے۔
طبی ماہرین کا کہناہے کہ محبت دماغ کے ایک مخصوص حصے میں رونما ہونے والی کیمیائی تبدیلی ہے ۔ یہ اس تبدیلی کے متشابہ ہے جو کوئی نشہ آور چیز کھانے سےدماغ میں پیدا ہوتی ہے۔
طب یونانی میں اسے دیوانگی قراردیتے ہوئے اس کا علاج تجویز کیا گیا ہے۔
نفسیاتی ماہرین محبت کو عورت اور مرد کے درمیان ایک دوسرے کے لیے موجود فطری کشش کا نام دیتے ہیں۔ ان کا کہناہے کہ ماؤں کواپنے بیٹوں سے، بہنوں کو اپنے بھائیوں سے اور بیٹیوں کو اپنے والد سے زیادہ پیار ہوتا ہے۔
سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ صنف مخالف سے محبت کے سوا تمام محبتیں معاشرے اور ماحول کے تقاضوں ، ضرورتوں اور ان کے اثرات کے تابع ہوتی ہیں۔
انسان کب محبت میں گرفتار ہوتاہے؟ سماجی ماہرین کے خیال میں یہ ایک طویل عمل ہے جو بتدریج آگے بڑھتا ہے۔ مگر شاعری میں اسے ایک ایسا تیر قرار دیا گیا ہے جو آناً فاناً جگر کے پار ہوجاتاہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سائنس اس نظریے کی تصدیق کرتی ہے۔ لیکن ان کا کہناہے کہ عشق کا تعلق دل سے نہیں بلکہ دماغ سےہے۔ ایک حالیہ سائنسی مطالعے سے ظاہر ہواتھا کہ عشق پہلی ہی نظر میں ہوجاتا ہے۔ اور جیسے ہی کوئی چہرہ نظروں کو بھاتا ہے، دماغ کے ایک مخصوص حصے میں برقی لہریں پیدا ہوتی ہیں ، جنہیں ایم آر آئی کے ذریعے ریکارڈ کیا جاسکتاہے ۔
اٹلی کی یونیورسٹی آف پیسا کی ڈاکٹر مارا زیتی کو شدید محبت میں مبتلا جوڑوں کے خون کے نمونوں سے معلوم ہوا کہ ان میں وہی اجزا موجود تھے جو ذہنی ہیجان اوراضطراب کے مریضوں میں پائے جاتے ہیں۔
امریکی ریاست نیوجرسی کی رٹگرز یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر ہیلن فشر کا کہناہے کہ محبت کی حالت میں دماغ میں مخصوص قسم کے ہارمون پیدا ہوتے ہیں، جن سے یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ عشق کے کس درجے پر پہنچ چکاہے۔
طبی ماہرین عشق کے مطابق تین درجے ہیں۔ ہر درجے میں دماغ میں مختلف قسم کے ہارمون پیدا ہوتے ہیں۔
نفسیاتی ماہرین کو پہلی نظر میں محبت کے نظریے سے قدرے اختلاف ہے۔ ان کا کہناہے کہ عشق میں گرفتار ہونے میں ڈیڑھ سے چار منٹ کا وقت لگتا ہے۔
ان کا کہناہے کہ عشق کی پہلی منزل لاشعوری طور پر جنسی کشش کے تابع ہوتی ہے۔ دوسری منزل پر عاشق اپنے محبوب کے ہر انداز اور ہر پہلوکو خوبی سمجھنے لگتا ہے اور آخر میں وہ ’رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی‘ کی منزل پر پہنچ جاتا ہے۔
نفسیاتی ماہرین عشق اور شادی دو الگ چیزیں قرار دیتے ہیں۔وہ کہتے ہیں اکثر صورتوں میں محبت کی شادی ناکام ہوجاتی ہے کیونکہ محبت میں دونوں کی توقعات بہت زیادہ بڑھ جاتی ہیں ، جن کا پورا ہونا عملی طورپر ممکن نہیں ہوتا، جس سے دل کو ٹھیس لگتی ہے ۔ یہ وہ منزل ہے جہاں ایک دوسرے کی خوبیاں بھی خامیاں دکھائی دینے لگتی ہیں اور ناکامی کاسفر شروع ہوجاتاہے۔
نفسیاتی ماہرین کا کہناہے کہ شادی ٹھنڈے دل و دماغ سے خوب سوچ سمجھ کرکرنی چاہیے۔ دیرپا محبت وہ ہوتی ہے جو لمبے عرصے کے میل ملاپ اور ایک دوسرے کی خوبیاں اور خامیاں قبول کرنے سے پروان چڑھتی ہے۔
سینٹ ویلنٹائن ، جس کی یاد میں ویلنٹائن ڈے منایا جاتاہے، نوجوانوں جوڑوں کی شادیاں کراتے تھے۔ 270ء کے لگ بھگ روم کے بادشاہ کلاؤڈس دوم نے نوجوان فوجیوں کی شادی پر پابندی لگادی تھی ۔ اس کا خیال تھا کہ اس سے ان کی کارکردگی بہتر ہوگی۔ سینٹ ویلنٹائن چوری چھپے ان کی شادیاں کرانے لگے اور بالآخر قید کردیے گئے۔ زیادہ تر روایات کے مطابق انہیں 14 فروری 270ء میں سزائے موت دے دی گئی۔
بعض تاریخ دانوں کا کہناہے کہ جیل میں ایک لڑکی ان سے ملنے آتی تھی۔ وہ اس کی محبت میں گرفتار ہوگئے جس کا اظہار انہوں نے سزائےموت سے قبل لڑکی کے نام آخری خط میں کیا تھا۔ خط کے آخری الفاظ تھے ’ تمہارا ویلٹنائن‘۔
آج بھی ویلنٹائن ڈے پر بھیجے جانے والے کارڈوں پر کسی کے دستخط نہیں ہوتے۔ یہی صرف دو الفاظ ہوتے ہیں۔
ایک سروے کے مطابق گذشتہ سال ایک ارب ویلنٹائن کارڈ بھیجے گئے تھے۔ اس سال یہ تعداد بڑھ سکتی ہے۔ سروے میں کہا گیا تھا کہ اکثر لوگوں کے ویلنٹائن ہر سال بدل جاتے ہیں اور بہت سے لوگ تو ایسے بھی ہیں جن کے ویلنٹائن ایک سے زیادہ ہیں۔