واشنگٹن —
کچھ پاکستانیوں نے جمعرات کو پاکستان میں ویلنٹائنز ڈے پر خوشی کے اظہار کے طور پر غبارے اور پھولوں کا تبادلہ کیا، جب کہ دیگر لوگوں نے تعطیل کو اسلام کے خلاف ہتک آمیز قرار دیتے ہوئے، اِس کی مذمت کی۔
بندرگاہ والا شہر کراچی، جہاں ایک کروڑ 80لاکھ لوگ آباد ہیں، خصوصی سائن بورڈز لگائے گئے تھے جِن میں ’ویلنٹائنز ڈے سے الگ رہیں‘ تحریر تھا اور شہریوں سے کہا گیا تھا کہ وہ اس سے دور رہیں۔
اِن میں تحریر تھا کہ یہ روایت اسلام سے ناواقفیت اور ہتک کی مظہر ہے۔
یہ سائن بورڈز جماعتِ اسلامی سے وابستہ ایک گروہ نے لگائے تھے، جو ایک مذہبی سیاسی جماعت ہے جس کی 342 کے پارلیمان میں چھ نشستیں ہیں۔
پارلیمنٹ میں سیکولر جماعتیں اکثریت میں ہیں اور متوقع طور پر اس سال ہونے والے انتخابات میں وہ اکثریتی سیٹیں جیتیں گی، لیکن مذہبی جماعتیں سڑکوں پر مظاہروں کی قوت کے بل بوتے پر سیاسی اثر و رسوخ رکھتی ہیں۔
جماعت اسلامی کے ترجمان، سید عسکری نے کہا ہے کہ ویلنٹائنز ڈے اسلامی ثقافت کے خلاف ہے۔ ہمارے خیال میں تعلقات کی ایک خاص حرمت ہے۔ ہماری ثقافت میں شادیاں والدین کی رضامندی سے ہوتی ہیں اور لوگ محض محبت کے جذبے کی بنیاد پر شادیاں نہیں کرتے۔
اُن کے بقول، یہ دِن منا کر، دراصل ایک اسلامی معاشرے میں مغربی اقدار اور ثقافت کو ٹھونسنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اُن کے بقول، ’مغرب پر نظر دوڑائیں، تو پتا چلتا ہے کہ لوگ کتوں سے تو پیار کرتے ہیں لیکن جب اُن کے والدین بڑی عمر کو پہنچتے ہیں، اُن کو گھر سے باہر نکال دیا جاتا ہے۔ ہم ایسی روایات کی تقلید نہیں کرسکتے‘۔
پشاور میں کچھ لوگوں نے پیر کے روز ٹیلی ویژن کیمروں کے سامنے ویلنٹائنز ڈے کے کارڈ نذرِ آتش کیے۔ سیاہ رنگ کے برقعوں میں ملبوس خواتین نے کتبے اٹھا رکھے تھے جِن میں اِس روایت کی مذمت کی گئی تھی۔
’پیمرا‘ ملک میں ہونے والی نشریات کے ضابطوں پر عمل درآمد کراتا ہے۔ ادارے نے براڈکاسٹرز پر زور دیا ہے کہ وہ سامعین و ناظرین کے جذبات کا خیال رکھیں۔
اُدھر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ایک کاروباری شخص، محمد اجمل نے کہا کہ ویلنٹائنز ڈے کاروبار کے لیے ایک سودمند مشغلہ ہے۔ اُس وقت وہ ایک صارف کو سرخ گلاب کے پھولوں اور زری سے بنا ہوا شوخ اور لشکارے مارتا ہوا دل کا نقش بیچ رہے تھے۔
اکیس برس کے طالب علم فتح خان کا کہنا تھا کہ میں ویلنٹائنز ڈے کا پکا حامی ہوں۔ اِس کے آتے ہی شہر میں پھول ہی پھول دکھائی دیتے ہیں، جس سے ماحول کی رونق بڑھ جاتی ہے۔
بندرگاہ والا شہر کراچی، جہاں ایک کروڑ 80لاکھ لوگ آباد ہیں، خصوصی سائن بورڈز لگائے گئے تھے جِن میں ’ویلنٹائنز ڈے سے الگ رہیں‘ تحریر تھا اور شہریوں سے کہا گیا تھا کہ وہ اس سے دور رہیں۔
اِن میں تحریر تھا کہ یہ روایت اسلام سے ناواقفیت اور ہتک کی مظہر ہے۔
یہ سائن بورڈز جماعتِ اسلامی سے وابستہ ایک گروہ نے لگائے تھے، جو ایک مذہبی سیاسی جماعت ہے جس کی 342 کے پارلیمان میں چھ نشستیں ہیں۔
پارلیمنٹ میں سیکولر جماعتیں اکثریت میں ہیں اور متوقع طور پر اس سال ہونے والے انتخابات میں وہ اکثریتی سیٹیں جیتیں گی، لیکن مذہبی جماعتیں سڑکوں پر مظاہروں کی قوت کے بل بوتے پر سیاسی اثر و رسوخ رکھتی ہیں۔
جماعت اسلامی کے ترجمان، سید عسکری نے کہا ہے کہ ویلنٹائنز ڈے اسلامی ثقافت کے خلاف ہے۔ ہمارے خیال میں تعلقات کی ایک خاص حرمت ہے۔ ہماری ثقافت میں شادیاں والدین کی رضامندی سے ہوتی ہیں اور لوگ محض محبت کے جذبے کی بنیاد پر شادیاں نہیں کرتے۔
اُن کے بقول، یہ دِن منا کر، دراصل ایک اسلامی معاشرے میں مغربی اقدار اور ثقافت کو ٹھونسنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اُن کے بقول، ’مغرب پر نظر دوڑائیں، تو پتا چلتا ہے کہ لوگ کتوں سے تو پیار کرتے ہیں لیکن جب اُن کے والدین بڑی عمر کو پہنچتے ہیں، اُن کو گھر سے باہر نکال دیا جاتا ہے۔ ہم ایسی روایات کی تقلید نہیں کرسکتے‘۔
پشاور میں کچھ لوگوں نے پیر کے روز ٹیلی ویژن کیمروں کے سامنے ویلنٹائنز ڈے کے کارڈ نذرِ آتش کیے۔ سیاہ رنگ کے برقعوں میں ملبوس خواتین نے کتبے اٹھا رکھے تھے جِن میں اِس روایت کی مذمت کی گئی تھی۔
’پیمرا‘ ملک میں ہونے والی نشریات کے ضابطوں پر عمل درآمد کراتا ہے۔ ادارے نے براڈکاسٹرز پر زور دیا ہے کہ وہ سامعین و ناظرین کے جذبات کا خیال رکھیں۔
اُدھر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ایک کاروباری شخص، محمد اجمل نے کہا کہ ویلنٹائنز ڈے کاروبار کے لیے ایک سودمند مشغلہ ہے۔ اُس وقت وہ ایک صارف کو سرخ گلاب کے پھولوں اور زری سے بنا ہوا شوخ اور لشکارے مارتا ہوا دل کا نقش بیچ رہے تھے۔
اکیس برس کے طالب علم فتح خان کا کہنا تھا کہ میں ویلنٹائنز ڈے کا پکا حامی ہوں۔ اِس کے آتے ہی شہر میں پھول ہی پھول دکھائی دیتے ہیں، جس سے ماحول کی رونق بڑھ جاتی ہے۔