ترقی پذیر دنیا کے بیشتر ملکوں کی طرح افغانستان میں بھی امیر اور غریب کے درمیان طبقاتی فرق انتہائی نمایاں نظر آتا ہے۔ تاہم ایک ایسے ملک میں یہ تفریق مزید گہری ہے جہاں عشروں سے جاری جنگ نے غریبوں کو نان کے ایک ٹکڑے کے لیے بھی محتاج بنا دیا گیا ہےاور انسانی بحران کم ہونے کے بجائے بڑھتا جارہا ہے۔
ایک نمایاں فرق یہ ہے کہ دیگر ملکوں میں ایکڑوں پر بنے آباد فارم ہاؤسوں اور محل نماگھروں کے مقابلے میں افغانستان میں ان میں بہت سے ویران محلات اپنے مالکوں کے منتظر ہیں اور افغان عوام ان کے احتساب کے۔
شمالی افغانستان کے شہر مزار شریف کے ایک محل نما گھرمیں جسے حال ہی میں یوٹیوب پر پروفائل کیا گیا تھا، تمام کھڑکیاں اور دروازے بلٹ پروف ہیں - ایک ایسے ملک میں جہاں لاکھوں افراد مارے گئے تھے، ایسے انتظامات وہاں کے سابق رہائشیوں کےتحفظ کے خدشات کا ثبوت ہیں۔
یو ٹیوب پر اس محل کی ویڈیو کو بہت سے صارفین نے ٹوئٹر پر شئیر کیا ہے ۔
دیگر ویڈیوز میں، ان پر تعیش گھروں میں پرائیویٹ جیل، ہیلی پیڈ، غیر ملکی پودوں والے باغات، جم، سوانا ، پول اور دیگر سہولیات کے مناظر دکھائے گئے ہیں جو اس تاثر کی نفی کرتے نظر آتے ہیں کہ افغانستان دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک ہےجس کی بیشتر آبادی ایک وقت کے کھانے کی بھی بمشکل متحمل ہو پاتی ہے۔
لیکن اب یہ محلات خالی پڑے ہیں، یہ چھوٹےبڑے محلات سابق جنگجو سرداروں، سرکاری اہل کاروں اور قانون سازوں کے ہیں جو اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار پر قبضے سے پہلے یا اس کے فوراً بعد ملک سے فرار ہو گئے تھے۔
ان پرتعیش گھروں کے مالکان کے ساتھ اپنی دیرینہ دشمنی کے باوجود، طالبان حکام نے انہیں اب تک ضبط نہیں کیاہے اور انہیں نجی جائیدادیں قرار دیا ہے۔ یہاں تک کہ زیادہ تر کو لوٹ مار کے خلاف بھی تحفظ حاصل ہے، جو افغانستان میں گزشتہ چند دہائیوں کے دوران کئی حکومتی تبدیلیوں کے دوران دیکھنے میں آئی ہے۔
جب کہ ہ دنیا بھر میں پھیلے سابق افغان طبقہ امرا میں سے اکثر طالبان کے خلاف باقاعدگی سے بات کرتےہیں ہے، اور کچھ نے تو افغانستان کی نام نہاد امارت اسلامیہ کے خلاف ایک اور جنگ چھیڑنے کے لیے بیرونی مدد کی بھی اپیل کی ہے۔
دو دہائیوں تک طالبان کے ساتھ جنگ کرنے والےملک امریکہ نے کہا ہے کہ وہ طالبان کے خلاف کسی مسلح اپوزیشن کی حمایت نہیں کرتا اور وہ افغانستان میں ایک جامع حکومت کے قیام کا بھی بارہا مطالبہ کر چکا ہے۔
وی او اے ٹیلی ویژن کے میزبان سے بات کرتے ہوئے،صوبہ بلخ کے ایک سابق گورنر عطا محمد نور نے، جن کا شاہانہ طرز زندگی میڈیا میں رپورٹ کیا جاتا رہاہے، طالبان پر الزام لگایا کہ وہ ان کی متعدداملاک کو مختلف فوجی اور انتظامی مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
نور نے متحدہ عرب امارات سے ویڈیو لنک کے ذریعے میزبان کو بتایا کہ ’’صرف میری رہائش گاہ خالی رہ گئی ہے‘‘۔ تاہم انہوں نے کہا کہ وہ اپنی املاک پر دعویٰ کرنے کے لیے افغانستان واپس نہیں جائیں گے۔
بدعنوانی کی علامتیں:
یوٹیوب اور دیگر سماجی پلیٹ فارمز پر پوسٹ کیے گئے محلات نما گھروں کے ویڈیوز کو بڑے پیمانے پر دیکھا جاتاہے اور لوگ سابق افغان حکومت کے اعلیٰ عہدوں کی بدعنوانی اور دولت لٹانےکے بارے میں زور شور سے تبصرے کرتے ہیں۔
ٹوئٹر پر پوسٹ کی جانے والی ایک ویڈیو میں طالبان کو جنرل دوستم کے انتہائی عالیشان محل کے اندر دکھایا گیا ہے۔ اسے 2,745 بار ری ٹویٹ کیا گیا ہے، اور ہزاروں کی تعداد میں تبصرے ہیں۔
یوٹیوب بلاگر ہمایوں افغان نے جو طالبان کے اقتدار میں آنے سے پہلے اور بعد میں افغانستان کے مختلف حصوں سے ویڈیوز بنا چکے ہیں، کابل سے وی او اے کو بتایا،’’یہ جگہیں کرپشن سے بنائی گئی تھیں۔ یہ عالی شان مکان غریبوں سے(لوٹی) رقم سے بنائے گئے تھے‘‘۔
تعمیر نو کیلئے کی جانے والی سرمایہ کاری میں بدعنوانی:
تقریباً 20 سال تک، امریکہ اور یورپی عطیہ دہندگان نے افغانستان میں جمہوری حکومت، قانون کی حکمرانی اور عوامی احتساب کے لیے بہت زیادہ سرمایہ کاری کی، لیکن یہ کوششیں بڑی حد تک بدعنوانی کی وجہ سے ناکام ہو گئیں۔
افغانستان کی تعمیر نو کے لیے خصوصی انسپکٹر جنرل (SIGAR) کی تحقیقات نے ’’افغان ریاست کے تقریباً ہر سطح پر بدعنوانی کی نشاندہی کی ہے - افغان فوجیوں اور پولیس کے لیے بین الاقوامی عطیہ دہندگان کی طرف سے ادا کی جانے والی تنخواہوں سے لے کر امریکی فوج کی طرف سے فراہم کردہ ایندھن کی ایک بڑے پیمانے پرچوری تک‘‘۔
ایک ترجمان نے وی او اے کو بتایا کہ امریکہ کی جانب سے 2002 سے 2022 کے درمیان افغانستان کی تعمیر نو کے لیے مختص کیے گئے 146.68 ارب ڈالر میں سے، SIGAR نے 63 ارب ڈالرز کے اخراجات کا جائزہ لیا اور پتہ چلا کہ حیران کن طور پر 19ارب ڈالرز یعنی ، 30فیصد، دھوکہ دہی اور غلط استعمال کی وجہ سے ضائع ہو گئے۔
دیگرغیر جانبدار اداروں کےانداز ے بھی اسی طرح کے ہیں۔
(اکمل داعی۔ وی اے او نیوز )