واشنگٹن —
امریکہ صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ روس کی طرف سے یوکرین میں فوجی سرگرمیوں کے بارے میں ملنے والی رپورٹیں، ’ گہری تشویش‘ کا باعث ہیں۔
جمعہ کی شام اپنے مختصر خطاب میں، صدر اوباما نے کہا کہ یوکرین کے حق حاکمیت کی خلاف ورزی سے سنگین نوعیت کا عدم استحکام پیدا ہو گا۔
اُنھوں نے کہا کہ ایسا کرنا یوکرین کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہو گا، جس کے بارے میں یوکرین کے عوام کو ہی فیصلے کا حق حاصل ہے۔
امریکی صدر نے کسی مخصوص امریکی انٹیلی جنس رپورٹ کا حوالہ نہیں دیا۔ اُنھوں نے یہ بات تسلیم کی کہ روس کے یوکرین کے ساتھ تاریخی تعلقات رہے ہیں، اور اِس ضمن میں اُنھوں نے بحیرہ اسود میں سیوسٹوپول کے بحری اڈے کی نشاندہی کی۔
تاہم، صدر نے کہا کہ یوکرین کے اقتدار اعلیٰ کی کسی قسم کی خلاف ورزی، شدید عدم استحکام کا باعث بنے گی۔
اُنھوں نے کہا کہ اگر ایسا ہوا، تو بین الاقوامی برادری اِس کی مذمت کرے گی۔
اس معاملے میں امریکہ کیا قدم اٹھائے گا، بقول صدر، امریکہ بین الاقوامی برادری کے ساتھ کھڑا ہو گا اور اس بات کا اعادہ کیا جائے گا کہ یوکرین میں مداخلت کی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔
وائٹ ہاؤس میں نامہ نگاروں کے سامنے مختصر بیان دیتے ہوئے، صدر اوباما نے یاددہانی کرائی کہ روس وعدہ کر چکا ہے کہ وہ یوکرین کی حقِ حاکمیت میں دخل اندازی نہیں کرے گا۔
صدر کے خطاب سے قبل، اقوام متحدہ میں یوکرین کے سفیر، یوری سرگیئیف نے سلامتی کونسل کے ایک ہنگامی اجلاس کو بتایا کہ روسی جنگی ہیلی کاپٹر اور فوجی ٹرانسپورٹ طیارے کریمیا میں داخل ہو چکے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ شہر کے مرکزی ہوائی اڈے کو روسی افواج نے ’فتح‘ کرلیا ہے۔ مذاکرات کے سلسلے میں، سرگیئیف نے کہا کہ وہ عالمی برادری کی اخلاقی اور سیاسی حمایت
چاہتے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ اُن کے ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ’پریشان کُن‘ ہے۔
جمعے کے روز کریملن نے کہا کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون، جرمن چانسلر آنگلا مرخیل اور یورپی کونسل کے سربراہ ہرمن وان رومپے کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کی ہے۔
کریملن نے کہا ہے کہ گفتگو میں اس بات پر زور دیا گیا کہ تشدد کے واقعات میں کسی اضافے سے گریز کیا جائے اور یہ کہ یوکرین کی صورت حال کو فوری طور پر بہتر کرنے کی کوششیں کی جائیں۔
اقوام متحدہ میں امریکی سفیر، سمانتھا پاور نے کہا ہے کہ امریکہ کریمیا کے بارے میں ہنگامی بین الاقوامی مصالحت کا مطالبہ کرے گا۔
روسی سفیر، وِٹالی چَرکن نے کہا ہے کہ اُن کا ملک، بقول اُن کے، باہر سے مسلط کی جانے والی مصالحت کا مخالف ہے۔
جمعہ کی شام اپنے مختصر خطاب میں، صدر اوباما نے کہا کہ یوکرین کے حق حاکمیت کی خلاف ورزی سے سنگین نوعیت کا عدم استحکام پیدا ہو گا۔
اُنھوں نے کہا کہ ایسا کرنا یوکرین کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہو گا، جس کے بارے میں یوکرین کے عوام کو ہی فیصلے کا حق حاصل ہے۔
امریکی صدر نے کسی مخصوص امریکی انٹیلی جنس رپورٹ کا حوالہ نہیں دیا۔ اُنھوں نے یہ بات تسلیم کی کہ روس کے یوکرین کے ساتھ تاریخی تعلقات رہے ہیں، اور اِس ضمن میں اُنھوں نے بحیرہ اسود میں سیوسٹوپول کے بحری اڈے کی نشاندہی کی۔
تاہم، صدر نے کہا کہ یوکرین کے اقتدار اعلیٰ کی کسی قسم کی خلاف ورزی، شدید عدم استحکام کا باعث بنے گی۔
اُنھوں نے کہا کہ اگر ایسا ہوا، تو بین الاقوامی برادری اِس کی مذمت کرے گی۔
اس معاملے میں امریکہ کیا قدم اٹھائے گا، بقول صدر، امریکہ بین الاقوامی برادری کے ساتھ کھڑا ہو گا اور اس بات کا اعادہ کیا جائے گا کہ یوکرین میں مداخلت کی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔
وائٹ ہاؤس میں نامہ نگاروں کے سامنے مختصر بیان دیتے ہوئے، صدر اوباما نے یاددہانی کرائی کہ روس وعدہ کر چکا ہے کہ وہ یوکرین کی حقِ حاکمیت میں دخل اندازی نہیں کرے گا۔
صدر کے خطاب سے قبل، اقوام متحدہ میں یوکرین کے سفیر، یوری سرگیئیف نے سلامتی کونسل کے ایک ہنگامی اجلاس کو بتایا کہ روسی جنگی ہیلی کاپٹر اور فوجی ٹرانسپورٹ طیارے کریمیا میں داخل ہو چکے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ شہر کے مرکزی ہوائی اڈے کو روسی افواج نے ’فتح‘ کرلیا ہے۔ مذاکرات کے سلسلے میں، سرگیئیف نے کہا کہ وہ عالمی برادری کی اخلاقی اور سیاسی حمایت
چاہتے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ اُن کے ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ’پریشان کُن‘ ہے۔
جمعے کے روز کریملن نے کہا کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون، جرمن چانسلر آنگلا مرخیل اور یورپی کونسل کے سربراہ ہرمن وان رومپے کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کی ہے۔
کریملن نے کہا ہے کہ گفتگو میں اس بات پر زور دیا گیا کہ تشدد کے واقعات میں کسی اضافے سے گریز کیا جائے اور یہ کہ یوکرین کی صورت حال کو فوری طور پر بہتر کرنے کی کوششیں کی جائیں۔
اقوام متحدہ میں امریکی سفیر، سمانتھا پاور نے کہا ہے کہ امریکہ کریمیا کے بارے میں ہنگامی بین الاقوامی مصالحت کا مطالبہ کرے گا۔
روسی سفیر، وِٹالی چَرکن نے کہا ہے کہ اُن کا ملک، بقول اُن کے، باہر سے مسلط کی جانے والی مصالحت کا مخالف ہے۔