افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکہ کے سابق نمائندہ خصوصی مارک گروسمن نے کہا ہے کہ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ خود افغانوں ہی کو کرنا ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ امریکہ یا کوئی اور ملک آگے بڑھ کر ان کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرے۔
وائس آف امریکہ کی دری سروس کو خصوصی انٹرویو میں گروسمن نے توقع کا اظہار کیا کہ افغانوں کے وفود مل بیٹھ کر گفت و شنید سے مسائل کا سیاسی حل تلاش کر لیں گے اور یہ کام جتنا جلد ہو، بہتر ہے۔
طالبان اور افغان حکومت کے مذاکرات سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ امریکہ طالبان سمجھوتے میں یہی بات کی گئی ہے کہ دس روز کے اندر دونوں افغان فریق بات چیت کا آغاز کریں گے۔
گروسمن نے کہا کہ ان کی ہمدردیاں اشرف غنی کے ساتھ ہیں، جنھوں نے کہا ہے کہ قیدیوں کو رہا کرنے کے معاملے کا تعلق افغان اقتدار اعلیٰ سے ہے، اس لیے کسی قدر سفارت کاری کی ضرورت ہوگی۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ دونوں فریق معاملے کی نزاکت کو سامنے رکھتے ہوئے اس کا قابل عمل حل تلاش کریں گے۔
مارک گروسمن نے قطر میں سمجھوتے پر دستخط کے موقع پر اسی وقت کابل میں جاری کیے گئے مشترکہ اعلامیے کی جانب دھیان مبذول کرایا، جس میں امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر اور حکومت افغانستان کی جانب سے صدر اشرف غنی فریق تھے۔
گروسمن نے کہا کہ مشترکہ اعلامیے میں واضح کیا گیا ہے کہ افغان تنازعے کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں اور یہی بات انتہائی درجے کی اہمیت کی حامل ہے۔ اس بنیادی نکتے کو مد نظر رکھا جائے تو تمام بات واضح ہوجاتی ہے۔
سابق نمائندہ خصوصی نے کہا کہ گزشتہ برسوں میں جو بات کھل کر سامنے آئی ہے، جسے زلمے خلیل زاد نے بھی بیان کیا ہے، وہ یہی ہے کہ افغانستان کا روشن مستقبل افغانوں کی باہمی بات چیت سے ممکن ہے۔ اسی بات کو وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اجاگر کیا جو کہہ چکے ہیں کہ طالبان کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ 2001ء نہیں ہے۔
گروسمن نے کہا کہ سمجھوتے پر عمل درآمد کے لیے نگرانی اور تصدیق کا کوئی قابل عمل طریقہ کار ہونا چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ امریکی فوج تشدد میں کمی لانے سے متعلق کسی ابہام کی شکار نہیں۔ امریکہ اس میں کمی چاہتا ہے۔ طالبان کو یقین دہانیوں پر عمل کرتے ہوئے تشدد میں کمی لانی چاہیے۔ بصورت دیگر افغان عوام یہ کیسے مان لیں گے کہ ان کا مستقبل تابناک ہوگا۔
گروسمن نے طالبان رہنما ملا برادر کے ساتھ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیلی فونک گفتگو کے بارے میں کہا کہ اہم بات یہ ہے کہ افغانستان کے مستقبل کے بارے میں افغان خود بات چیت کریں اور معاملات کا حل نکالیں۔