وائس آف امریکہ سے افغانستان کے لیےٹی وی چینلز کی نشریات پر طالبان کی جانب سے پابندی لگائے جانے کے محض ایک ہی روز بعد امریکی حکومت کی امداد سے چلنے والی غیر ملکی ایجنسی نے باضابطہ طور پر افغانستان کے لیے ہفتے میں ساتوں دن چوبیس گھنٹے سیٹلائٹ ٹی وی چینل لانچ کر دیا ہے جسے گھر بیٹھے دیکھا جا سکتا ہے۔
اس چینل پر افغانستان میں بولی جانے والی پشتو اور دری زبانوں میں غیر جانبدارانہ خبریں اور معلوماتی پروگرام نشر کیے جائیں گے۔
طالبان نے افغانستان کے مقامی ٹی وی چینلز کو احکامات جاری کیے تھے کہ اتوار 27 مارچ سے وائس آف امریکہ، بی بی سی اور ڈوئچے ویلے کی نشریات کو روک دیا جائے۔ یہ طالبان کی اس جامع پالیسی کا حصہ ہے جس کے تحت میڈیا پر ایسے مواد کو روکا جا رہا ہے جو طالبان کی پالیسیوں کی خلاف ورزی شمار کیا جاتا ہے، جس میں خواتین صحافیوں کو مرد نیوز کاسٹرز کے ساتھ بطور اینکر کام کرنے کی ممانعت بھی شامل ہے۔
وائس آف امریکہ کی پریس ریلیز کے مطابق وائس آف امریکہ کی ٹی وی سٹریم جس کی شناخت ’وی او اے افغانستان‘ کے طور پر رکھی گئی ہے کو، یاشیٹ وائے ون اے سیٹلائیٹ (52.2 ڈگری مشرق کی جانب)، ٹرانسپونڈر 12 (ڈاؤن لنک فریکوئینسی 11.938 جی ایچ زی) چینل 469 پر دیکھا جا سکتا ہے۔ یاشیٹ سیٹلائٹ افغانستان کا سب سے معروف پلیٹ فارم ہے جس کی مدد سے اس بات کو یقینی بنایا جا سکتا ہےکہ طالبان کی جانب سے سینسرشپ کے باوجود افغان ناظرین تک وائس آف امریکہ کی نشریات پہنچائی جا سکیں۔
وائس آف امریکہ کی قائم مقام ڈائریکٹر یولنڈا لوپیز نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’افغانستان دنیا بھر میں جبر کا شکار میڈیا مارکیٹوں میں سے ایک ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’طالبان کی جانب سے صحافتی آزادیوں کو ختم کرنے کی کوشش کے باوجود وائس آف امریکہ نیوز مصدقہ اور معتبر خبروں اور معلومات کے ساتھ افغان ناظرین کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔‘‘
وائس آف امریکہ کے نئے سیٹلائٹ چینل میں ’ٹی وی آشنا‘ کی معروف نشریات، اس کے خواتین کے شو ’اتصال‘، ریڈیو فری یورپ، ریڈیو لبرٹی کے آزادی ریڈیو کی نشریات، دیگر پروگرامز کے علاوہ مزید ایسے پروگرام بھی پیش کیے جائیں گے جن پر کام جاری ہے۔
وائس آف امریکہ کے سیٹلائیٹ چینل پر طالبان کی جانب سے پچھلے برس اگست میں کابل پر قبضے کے بعد سے کام جاری تھا۔ اس چینل کو یوٹیوب کے علاوہ وائس آف امریکہ کی پشتو اور دری سروسز کی ویب سائٹس پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
دیگر بین الاقوامی ادارے اس سلسلے میں کیا اقدامات اٹھا رہے ہیں؟
وائس آف امریکہ کی اردو سروس نے اس سلسلے میں بی بی سی ورلڈ نیوز اور ڈی ڈبلیو سے بذریعہ ای میل جب یہ سوال پوچھا تو اس رپورٹ کے چھپنے تک بی بی سی کی جانب سے جواب موصول نہیں ہوا، جب کہ جرمن حکومت کی امداد سے چلنے والے ڈوئچے ویلے (ڈی ڈبلیو) کے ڈائریکٹوریٹ جنرل کے کورپوریٹ ترجمان کرسٹوف جمپلیٹ نے بذریعہ ای میل وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ڈی ڈبلیو کی دری اور پشتو سروس نے طالبان کے کابل پر قبضے کے ایک مہینے بعد ہی ریڈیو پروگرامنگ شارٹ ویو پر شروع کر دی تھی جب کہ روزانہ کے نشریاتی اوقات کو بھی بڑھایا گیا تھا۔ ترجمان کے مطابق ان کے دیگر سوشل میڈیا چینلز کا استعمال، ان کے ویڈیو مواد سمیت افغانستان میں بہت زیادہ ہے۔
ملکی اور غیر ملکی ناقدین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں میڈیا اور آزادئ اظہار کی صورتِ حال خراب ہے۔ افغان صحافیوں کو بارہا حراست میں لیا جا رہا ہےاور سیکیورٹی فورسز کی جانب سے تشدد کا نشانا بنایا جا رہا ہے۔ طالبان کی عبوری حکومت نے 'صحافتی قواعد' کا ایک سیٹ جاری کیا ہے جس میں "اچھے کام کا حکم دینا اور برے کام سے دور رہنا' کے اسلامی نظریے کی گروپ کی جانب سے کی گئی تشریح کی میڈیا میں تعمیل بھی شامل ہے۔
یاد رہے کہ دسمبر میں رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) کے جاری کیے گئے ایک سروے کے مطابق طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے کم از کم 40 فی صد افغان میڈیا ادارے ختم ہو گئے اور 80 فی صد سے زائد خواتین صحافی اپنی ملازمتوں سے محروم ہو گئی ہیں۔